ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی کی تنگ اور تاریک گلیوں میں تہزیب اور شہریت کی ترجمانی کرنے والے نفیس احمد نے 7 مئی 1979 کو 'ترجمان' اخبار کی شروعات کی تھی، اس اخبار کو شروع کرنے کا مقصد تھا کہ شہر کی عوام کو انکے شہر کی پہچان اور انکی زبان میں اپنے اطراف کی تمام سرگرمیوں سے واقفیت رہے۔
'ترجمان' اخبار معاشی بحران کا شکار - اخبار
کورونا وائرس کے پر آسوب دور کے بعد متعدد اخبارات معیشت کے بحران سے دو چار ہو رہے ہیں، خاص طور پر اردو اخبارات کے سامنے ان کو مزید چلانا بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے، اس کے برعکس بریلی میں ایک بزرگ گزشتہ چار دہائیوں سے ایک اخبار نکال رہے ہیں، خاص بات یہ ہے کہ اخبار کی اشاعت میں نہ صرف وہ اکیلے مصروف ہیں، بلکہ ان کی اس تحریر اور اشاعت میں ان کے تین بیٹے بھی شانہ بشانہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اپنے ابتدائی دور میں اخبار نے رفتار پکڑی تو تمام اخبارات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا لیکن جیسے جیسے نسل در نسل نوجوان طبقہ نے اردو زبان کو فراموش کیا، ترجمان اخبار کی اشاعت تقریباً 50 ہزار سے کم ہوکر 5 ہزار تک آکر محدود ہو گئ ہے۔
دراصل ترجمان اخبار نہ صرف بریلی ضلع کی ترجمانی کرنے کے مقصد سے شروع کیا گیا تھا، بلکہ اس میں شہر کی تمام خبروں کو شائع کرنے کا جنون بھی تھا، اسکا مقصد سنسنی پھیلانا نہیں تھا، بلکہ حقیقت سے شہر کو روبرو کرانا بھی تھا. لیکن وقت گزرتا گیا اور اس اخبار کا دائرہ سمٹتا گیا.
کبھی شہر کی ضرورت کہلانے والا اخبار اب اس کنبہ کی ضرورت بن کر رہ گیا ہے، اب اخبار سے صرف اتنی ہی آمدنی ہو سکتی ہے، جتنے میں ایک کنبہ کا خرچ چل سکتا ہے، اخبار کی اشاعت کے لیئے پرنٹنگ پریس بھی اپنی لگائی گئیہے. اخبار نکالنے کے اخراجات کو کم کرنے کی سب بڑی دلیل یہ ہے کہ خبریں جمع کرنے، کمپیوٹر پر کمپوزنگ کرنے، پیجینیشن کرنے اور اخبار شائع کرنے کے لیئے تمام شعبوں کی ذمہ داری نفیس احمد کے تینوں بیٹے رئیس احمد، نسیم احمد اور ندیم احمد ہی ادا کرتے ہیں، جس سے کم از کم اخراجات میں اخبار نکالا جا سکے۔
بہرحال نفیس احمد کہتے ہیں کہ جب سے حکومتوں نے اردو اخبارات کو فراموش کرنے کا کام کیا ہے، اردو اخبارات کے برے دن شروع ہو گئے. دوسرا پہلو یہ ہے کہ بالخصوص مسلم سماج کی جانب سے بھی نہ کوئ امداد ہے اور نہ ہی اشتہارات کا کوئ شوق اور جزبہ ہے. لہزا اس دور میں اردو کا اخبار نکالنا روزی روٹی کے لیے معیشت سے جنگ کرنے کے برابر ہے.