اردو

urdu

ETV Bharat / state

Gyanvapi Case:پلیس آف ورشپ ایکٹ ملک کی یکجہتی وہم آہنگی کے لیےضروری،مولانا فضل المنان

لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کے حوالے سے بھی سخت گیر ہندو جماعتوں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد لکچھمن ٹیلہ پر بنائی گئی ہے، عدالت میں یہ ابھی زیر غور ہے یہاں کے شاہی امام مولانا فضل المنان عدالت عظمی میں پلیس اف ورشف ایکٹ کے فریق بھی ہیں۔ Places of Worship Act is Essential to the Integrity of the Country

مولانا فضل المنان
مولانا فضل المنان

By

Published : May 29, 2022, 9:57 AM IST

مولانا فضل المنان

ریاست اترپریش کے ضلع بنارس کے گیان واپی مسجد میں گوری شنگار معاملہ سے لیکر عدالت کے حکم پر یویڈیو گرافی کے دوران ہندو فریق کی جانب سے مبینہ شیولنگ کے دعوے کے بعداب چند گوشوں سے یہ آواز بلند ہونے لگی ہے کہ اب پلیس اف ورشپ ایکٹ 1991 کو ختم کردیاجائے-Places of Worship Act is Essential to the Integrity of the Country
اس حوالے سے لکھنو کے ٹیلے والی مسجد کے شاہی امام مولانا فضل المنان ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں کہا کہ ہ پلیس اف ورشپ ایکٹ کے خاتمے کے لیے جو آوازیں بلند ہو رہی ہیں وہ ملک کی سالمیت اور گنگا جمنی تہذیب کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینئر وکیل اشونی نے پلیس آف ورشپ کو ختم کرنے کے لیے عدالت عظمی میں ایک درخواست دائر کی ہے، اس معاملہ کے میں ہم بھی فریق کی حیثیت سے شامل ہیں۔ اور اس کیس کو مضبوطی کے ساتھ عدالت میں لڑ رہے ہیں، امید ہے کہ عدالت انصاف کرےگی،انہوں نے کہا کہ پلیس اف ورشپ ملک میں گنگا جمنی تہذیب کے لئے انتہائی ضروری ہے، یہ ایکٹ بابری مسجد کے علاوہ تمام عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ گیان واپی مسجد یا ٹیلے والی مسجد کا معاملہ ہو ان تمام معاملوں کو اس ایکٹ کے تحت عدالت تک نہیں جانا چاہیے۔


انہوں نے کہا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ اگر ختم کر دیا جائے گا تو ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گا، آپسی بھائی چارہ تار تار ہو جائے گا اور اقلیتوں کے مابین بے چینی ہو گی،واضح رہے کہ لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کے حوالے سے بھی سخت گیر ہندو جماعتوں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد لکچھمن ٹیلہ پر بنائی گئی ہے، عدالت میں یہ ابھی زیر غور ہے یہاں کے شاہی امام مولانا فضل المنان عدالت عظمی میں پلیس اف ورشف ایکٹ کے فریق بھی ہیں۔


واضح رہے کہ کی کہ 1991 میں آنجہانی نرسمہاراو حکومت نے پلیس آف ورشپ ایکٹ کا نفاذ کیا تھا،قانون بنانے کا مقصد ایودھیا میں رام جنم بھومی تحریک کی شدت کو قابو میں کرنا تھ،ا حکومت نے قانون میں یہ شرط رکھی تھی کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے علاوہ ملک کی کسی بھی عبادت گاہ پر دوسرے مذاہب کے لوگوں کا دعوی قبول نہیں کیا جائے گا ۔

مزید پڑھیں:Shahi Imam On Uniform Civil Code: لکھنؤ کے شاہی امام کی یکساں سول کوڈ کی سخت مخالفت، کہا سڑکوں پر اتریں گے لوگ

اس ایکٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ ملک کی آزادی کے دن یعنی 15 اگست 1947 سے کسی بھی مذہبی ڈھانچے یا عبادت گاہ چاہے کسی بھی شکل میں ہوں دوسرے مذاہب کے لوگ دعویٰ نہیں کریں گے۔ 15 اگست 1947کو جس مذہبی مقام کا تعلق جس مذہب سے تھا وہ آج اور مستقبل میں اسی پر برقرار رہے گا، تاہم ایودھیا تنازعہ کو اس سے علیحدہ رکھا گیا تھا کیونکہ اس پر پہلے سے تنازعہ جاری تھا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details