ریاست اترپریش کے ضلع بنارس کے گیان واپی مسجد میں گوری شنگار معاملہ سے لیکر عدالت کے حکم پر یویڈیو گرافی کے دوران ہندو فریق کی جانب سے مبینہ شیولنگ کے دعوے کے بعداب چند گوشوں سے یہ آواز بلند ہونے لگی ہے کہ اب پلیس اف ورشپ ایکٹ 1991 کو ختم کردیاجائے-Places of Worship Act is Essential to the Integrity of the Country
اس حوالے سے لکھنو کے ٹیلے والی مسجد کے شاہی امام مولانا فضل المنان ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں کہا کہ ہ پلیس اف ورشپ ایکٹ کے خاتمے کے لیے جو آوازیں بلند ہو رہی ہیں وہ ملک کی سالمیت اور گنگا جمنی تہذیب کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینئر وکیل اشونی نے پلیس آف ورشپ کو ختم کرنے کے لیے عدالت عظمی میں ایک درخواست دائر کی ہے، اس معاملہ کے میں ہم بھی فریق کی حیثیت سے شامل ہیں۔ اور اس کیس کو مضبوطی کے ساتھ عدالت میں لڑ رہے ہیں، امید ہے کہ عدالت انصاف کرےگی،انہوں نے کہا کہ پلیس اف ورشپ ملک میں گنگا جمنی تہذیب کے لئے انتہائی ضروری ہے، یہ ایکٹ بابری مسجد کے علاوہ تمام عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ گیان واپی مسجد یا ٹیلے والی مسجد کا معاملہ ہو ان تمام معاملوں کو اس ایکٹ کے تحت عدالت تک نہیں جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ اگر ختم کر دیا جائے گا تو ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گا، آپسی بھائی چارہ تار تار ہو جائے گا اور اقلیتوں کے مابین بے چینی ہو گی،واضح رہے کہ لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کے حوالے سے بھی سخت گیر ہندو جماعتوں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد لکچھمن ٹیلہ پر بنائی گئی ہے، عدالت میں یہ ابھی زیر غور ہے یہاں کے شاہی امام مولانا فضل المنان عدالت عظمی میں پلیس اف ورشف ایکٹ کے فریق بھی ہیں۔
واضح رہے کہ کی کہ 1991 میں آنجہانی نرسمہاراو حکومت نے پلیس آف ورشپ ایکٹ کا نفاذ کیا تھا،قانون بنانے کا مقصد ایودھیا میں رام جنم بھومی تحریک کی شدت کو قابو میں کرنا تھ،ا حکومت نے قانون میں یہ شرط رکھی تھی کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے علاوہ ملک کی کسی بھی عبادت گاہ پر دوسرے مذاہب کے لوگوں کا دعوی قبول نہیں کیا جائے گا ۔
Gyanvapi Case:پلیس آف ورشپ ایکٹ ملک کی یکجہتی وہم آہنگی کے لیےضروری،مولانا فضل المنان
لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کے حوالے سے بھی سخت گیر ہندو جماعتوں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد لکچھمن ٹیلہ پر بنائی گئی ہے، عدالت میں یہ ابھی زیر غور ہے یہاں کے شاہی امام مولانا فضل المنان عدالت عظمی میں پلیس اف ورشف ایکٹ کے فریق بھی ہیں۔ Places of Worship Act is Essential to the Integrity of the Country
مولانا فضل المنان
اس ایکٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ ملک کی آزادی کے دن یعنی 15 اگست 1947 سے کسی بھی مذہبی ڈھانچے یا عبادت گاہ چاہے کسی بھی شکل میں ہوں دوسرے مذاہب کے لوگ دعویٰ نہیں کریں گے۔ 15 اگست 1947کو جس مذہبی مقام کا تعلق جس مذہب سے تھا وہ آج اور مستقبل میں اسی پر برقرار رہے گا، تاہم ایودھیا تنازعہ کو اس سے علیحدہ رکھا گیا تھا کیونکہ اس پر پہلے سے تنازعہ جاری تھا۔