لکھنو:1839 میں اودھ کے نواب محمد علی شاہ نے یکم محرم کو شاہی جلوس نکالنے کا اغاز کیا تھا۔ جو بڑے امام باڑے سے چھوٹے امام باڑے کی جانب آتا ہے، یہ جلوس شاہی طور طریقے سے نکالا جاتاہے،جس میں شاہی ظریح، علم تعزیہ ،ہاتھی، گھوڑے، اونٹ، شہنائی اور بینڈ باجا شامل ہوتا ہے۔
اس جلوس میں نہ صرف لکھنو کے اطراف کی عوام جوش و خروش کے ساتھ شرکت کرتی تھی،بلکہ الگ الگ ریاستوں کے لوگ بھی اس جلوس میں شامل ہونے کے لیے آتے ہیں۔ اس زمانے سے اب تک کے اس جلوس کا سلسلہ اسی روایت سے نکلتا ہے۔ پہلے یہ جلوس چوک سے ہوتے ہوئے چھوٹے امام باڑے کی جانب جاتا تھا۔ لیکن کچھ وقت لکھنو میں جلوسوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ جس کے بعد جب جلوس کی اجازت دی گئی تو راستے متعین کیے گئے، اور بڑے امام باڑے سے چھوٹے امام باڑے کی جانب رومی دروازے کے نیچے سے جلوس لانے کا فیصلہ کیا گیا اور اب تک یہی راستہ متعین ہے۔
لیکن رواں برس رومی دروازے کی مرمت ہو رہی ہے اور شاہی جلوس رومی دروازے کے نیچے سے نہ گزار کے بازو سے دیے گئے راستے سے نکالا جائے گا۔ اس تعلق سے نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ کہتے ہیں کہ رومی دروازے کے بیچ میں شگاف تھا۔ جس کو درست کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی گئی ،جس کے بعد حسین آباد ٹرسٹ نے درست کرانے کا فیصلہ کیا اور ابھی تک مرمت کا کام جاری ہے۔