مرادآباد: پانچ نومبر 1859 کو سر سید احمد خان نے مرادآباد میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کی غرض سے سرسید نے اس مدرسے کو شروع کیا تھا۔ یہ مدرسہ اپنی بدلی ہوئی شکل میں آج بھی کمپوزٹ اسکول تحصیلی اسکول کے نام سے بچوں کو تعلیم دے رہا ہے۔ مسلمانوں میں تعلیمی اعتبار سے پچھڑا پن کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سالوں پہلے مسلمان تعلیمی اعتبار سے جہاں تھے آج بھی حالات تقریبا وہی ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کو لے کر ہمارے بزرگوں نے کئی درسگاہ قائم کی اور مسلمانوں کو جہالت کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کی۔
ایسی ہی ایک کوشش سر سید احمد خان نے کی اور مسلمانوں سے جہالت کے اندھیرے کو دور کرنے کی غرض سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا بڑا اور کامیاب ادارہ قائم کیا۔ مرادآباد میں مجسٹریٹ کی حیثیت سے سر سید احمد خان نے یہاں ایک لمبا وقفہ گزارا اور اس دوران کئی علمی اور ادبی خدمات کو انجام دیا۔ اسی سے متعلق مؤرخ ڈاکٹر آصف حسین سے ای ٹی وی بھارت اُردو نے تفصیلی گفتگو کی۔ ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ علیگڑھ کا رخ کرنے سے قبل سر سید احمد خان نے تقریبا چار سال مرادآباد میں قیام کیا اور اس دوران انہوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کی غرض سے مرادآباد میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔
ڈاکٹر آصف نے کہا کہ مرادآباد میں یہ پہلا ایسا اِدارہ تھا جسے مسلمانوں میں تعلیمی اعتبار سے بیداری لانے کی غرض سے کھولا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سر سید نے اپنے دم خم پر اس مدرسے کو شروع کیا تھا اور اس مدرسے میں تقریبا 175 طلباء اس وقت تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ سر سید احمد خان نے مدرسے میں ایسا نظام قائم کیا تھا کہ اُن کے مدرسے میں سبھی مذاہب کے ماننے والے طلباء اور اسٹاف کے لوگ شامل تھے۔ مدرسے کی تعطیل کے کیلنڈر میں جہاں مسلم تیوہار پر چھٹیاں تھیں تو وہیں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے لیے بھی چھٹیاں رکھی گئی تھیں۔