اردو

urdu

ETV Bharat / state

Journalist Ahmed Saeed Passed Away ممتاز صحافی احمد سعید کا انتقال اردو صحافتی دنیا میں سوگ کی لہر - لکھنؤ خبر

مرحوم احمد سعید متعدد بیماریوں کے شکار تھے، آخری جانچ میں کورونا پازیٹیو ہونے کی رپورٹ آئی تھی جس کے بعد انہیں ملیح آباد کے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں وہ کوما میں تھے، ان کی عمر 97 سال تھی۔ The great Urdu journalist Ahmad Saeed passed away

ممتاز صحافی احمد سعید کا انتقال اردو صحافتی دنیا میں سوگ کی لہر
ممتاز صحافی احمد سعید کا انتقال اردو صحافتی دنیا میں سوگ کی لہر

By

Published : Oct 3, 2022, 10:36 AM IST

Updated : Oct 3, 2022, 12:57 PM IST

ملیح آباد، لکھنؤ، اترپردیش:بھارت اور کلکتہ میں نمایاں خدمات انجام دینے والے ممتاز اردو صحافی احمد سعید ملیح آبادی کا اتوار کے روز انتقال ہوگیا، انہوں نے طویل علالت کے بعد لکھنؤ کے پی جے آئی ہسپتال میں آخری سانس لی۔ ان کی تدفین آج یعنی 3 اکتوبر کو بعد نماز ظہر ملیح آباد کے قبرستان میں ہوگی، لواحقین میں دو بیٹے ایک بیٹی ہے۔ ان کے انتقال سے لکھنؤ کے و ملک کے نامور صحافیوں میں غم کی لہر ہے۔ واضح رہے کہ مرحوم احمد سعید متعدد بیماریوں کے شکار تھے، آخری جانچ میں کورونا پازیٹیو ہونے کی رپورٹ آئی تھی جس کے بعد انہیں ملیح آباد کے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں وہ کوما میں تھے، ان کی عمر 97 سال تھی۔ The great Urdu journalist Ahmad Saeed passed away


پروفیسر خان محمد عاطف ملیح آبادی بتاتے ہیں کہ وہ اردو، عربی اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتے تھے، اعظم گڑھ کے دارالمصنفین سے تعلیم حاصل کی اور عربی زبان میں وہیں سے مہارت حاصل کی۔ وہ بتاتے ہیں جب میں کلکتہ جاتا تھا تو ہفتوں قیام کرتا تھا، زیادہ تر اردو صحافت، سیاست قوم و ملت کی فلاح پر گفتگو ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ اس حوالے سے فکرمندی کا اظہار کرتے تھے۔ راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں انہوں نے اردو پرنٹر کے لیے سفارش کی تھی جس کے بعد حکومت نے عملی جامہ پہنایا اور اردو اخبارات کو بہت فائدہ حاصل ہوا۔

وہ بتاتے ہیں ہند نام سے ان کے والد مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ہفتہ وار میگزین نکالتے تھے، انگریزوں نے اس پر پابندی عائد کی تھی جس کے بعد روز نامہ نکالنا شروع کیا جب ملک آزاد ہوا تو انہوں نے اپنے اخبار کا نام آزاد ہند رکھا اس کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد نے احمد سعید کے والد مولانا عبدالرازق کو دہلی طلب کیا تو انہوں نے اخبار کے حوالے سے فکرمندی ظاہر کی تھی۔ تو مولانا نے کہا کہ اپنے بیٹے کے حوالے کر دیجیے، مچھلی کے بچے کو تیرنا نہیں سکھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد سے انہوں نے ساٹھ برس تک آزاد ہند کی ادارت کی اور اّڈیٹوریل لکھتے رہے۔


چونکہ وہ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے لیے اپنے اخبار میں نرم گوشہ رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ دونوں سیاسی جماعتوں نے انہیں ایوان بالا کا رکن بنایا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ملک تقسیم ہوا تو پاکستان نے عرب ممالک میں بھارت کو خوب بدنام کیا اور عربی زبان میں مضامین لکھے کہ بھارت میں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اس کے جواب میں مولانا عبدالرازق نے عربی میں ایک میگزین شروع کیا جس کا نام ثقافۃ الہند رکھا جو آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے انتقال سے بہت رنج و غم ہے نہ صرف ملیح آباد میں بلکہ اردو دنیا میں سوگ کی لہر ہے۔

اتر پردیش کے سابق اطلاعاتی کمشنر حیدر عباس بتاتے ہیں کہ لکھنؤ سے متصل ملیح آباد کی سرزمین سے کئی علمی شخصیات نے جنم لیا، جن میں مرحوم احمد سعید بھی تھے، وہ قدیم روایت کے پاسدار اور اردو صحافت میں ممتاز درجہ رکھتے تھے ان سے ایک بار ملاقات ہوئی جس کے بعد ان سے کافی متاثر ہوا وہ اتنے اعلیٰ اقدار کے مالک ہونے کے باوجود انتہائی ملنسار اور تواضع کے حامل تھے۔ ان کے جانے سے اردو صحافت کا ایک باب ختم ہوگیا۔ اردو صحافت کو جو نقصان ہوا وہ ناقابل تلافی ہے۔

مزید پڑھیں:'معروف شاعر و صحافی قیصر شمیم کے انتقال سے اردو ادب کو نقصان'

خیال رہے کہ احمد سعید ملیح آبادی ایوان بالا کے رکن بھی رہے ہیں، صحت اور عمر کے سبب کلکتہ چھوڑ کر ملیح آباد منتقل ہو گئے تھے۔ جب کہ اخبار آزاد ہند کو شاردا گروپ کو فروخت کر دیا تھا مگر شاردا گروپ مقدموں میں پھنسنے کے سبب مشکلات سے گھر گیا اور ساتھ ہی اخبار بھی منظر عام پر نہ آ سکا۔ کلکتہ کی اردو صحافت میں آزاد ہند اور احمد سعید ملیح آبادی کا جو مقام تھا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی موت کے ساتھ اردو صحافت کا ایک باب ختم ہوگیا۔

Last Updated : Oct 3, 2022, 12:57 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details