علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اجمل خاں طبیہ کالج میں آج ہفتہ کے روز 1994 بیچ کے فارغین کی سلور جوبلی المنائی میٹ کا انعقاد اجمل خان طبیہ کالج کے آڈیٹوریم میں کیا گیا، جس میں مہمان خصوصی کے طور پر اے ایم یو کے پرو وائس چانسلر اختر حسیب نے شرکت کی۔
فارغین کی سلور جوبلی المنائی میٹ کا انعقاد فیکلٹی آف یونانی میڈیسن کے ڈین پروفیسر محمد محی الدین صدیقی نے 1994 بیچ کے طلبا کی آمد پر ان کا استقبال کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کا ادارہ میں آنا اس ادارے سے سچی محبت کی دلیل ہے۔
اجمل خان طبیہ کالج کے پرنسپل پروفیسر سعود علی خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے 20 سالہ دور کے یہ تیسری تقریب ہے جس میں سابق طلبہ کے اندر کافی جوش و جذبہ دیکھنے کو ملا۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ فروری 2020 میں کالج کی المنائی میٹ میں وہ اسی طرح کے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کریں گے، تاکہ وہ پروگرام تاریخی یادگاری حیثیت کا حامل ہو سکے۔
پروفیسر سعود علی خان نے کہا کہ کالج کی بہتری کے لیے اپنے قیمتی مشورے دیتے رہے اور ادارہ کا نام روشن کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے 20 سالہ دور کی متعدد حصولیابیوں کا بھی ذکر کیا۔
اس اجلاس میں 1994 بیچ کے طلبہ نے اپنے اساتذہ کو یادگاری نشان پیش کیا اور مختلف اساتذہ کے بدست ان سابق طلبا کو بھی یادگاری نشان دیا گیا۔
طبیا کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے کہا کہ اجلاس میں تقریبا 70 سابق طلبہ ملک اور دنیا کے مختلف حصوں سے تشریف لائے، اس سے نہ صرف باہمی تعلق مستحکم ہوگا بلکہ یہ کالج کی ترقی میں بھی مدد گار ہوگا۔
ڈاکٹر عبدالعزیز خان نے نظامت کے فرائض انجام دیئے، جبکہ ڈاکٹر محمد خالد نے اظہار تشکر کیا۔ اجلاس کے انعقاد میں ڈاکٹر فاروق احمد ڈار، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر عرشی ریاض، ڈاکٹر نور، ڈاکٹر صبا زیدی اور ڈاکٹر عبدالرؤف نے خاص کردار ادا کیا۔
دبئی سے تشریف لائے ظہور احمد خان نے بتایا یہ فخر کی بات ہے ان کے بیچ کے لیے ری یونین ہو رہی ہے، اس سے پرانی یادیں تازہ ہوتی ہیں ایک دوسرے کی حالات معلوم ہوجاتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا: '19 سال بعد علی گڑھ آیا ہوں، ہمارے کالج میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں ہے۔ ہمارے وقت میں پانچ سے چھ شعبہ تھے آج بارہ شعبہ جات ہیں ہمارے وقت میں پی جی کورس میں 16- 17 نشست تھی آج 28 ہے۔ ہمارے کالج کے لیے کامیابی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر اچھا لگتا ہے بڑی خوشی ہوتی ہے اگر میں نہیں آتا تو اس خوبصورت تقریب کو یاد کرتا۔
سہارنپور سے تشریف لائے ڈاکٹر نسرین خان نے کہا 1994 میں داخلہ لیا تھا بیس پچیس سالوں بعد اپنے ساتھیوں سے مل کر بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں، میرے پاس لفظ نہیں ہے کن لفظوں سے بیاں کروں لفظ نہیں ہے۔
اجمل خان طبیعت کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز خان نے بتایا: 'یہ ری یونین ہے یہ اے ایم یو کی روایت رہی ہے جو طالب علم یہاں سے پڑھ کر جاتے ہیں وہ یہاں سے جڑے رہتے ہیں، اس کے لیے وائس چانسلر کی نصیحت ہے تمام یونیورسٹی کے فیکلٹی اور شعبہ کو کے آپ پرانے طلبہ کو جوڑیئے تاکہ یونیورسٹی میں بہتری لائی جا سکے، تو اسی سمت میں ہمارے 1994 بیچ کے لوگوں نے ری یونین کیا اور یہ کامیاب رہیں جس میں ستر سے زیادہ لوگ شامل ہوئے۔'
طبیہ کالج میں تزئین و آرائش ہونا ہے فنڈ جمع کرنا ہے جس کے لیے یہاں کے پڑھے ہوئے طلبہ جو طبیہ کالج کے اولڈ بوائز ہیں وہ اس کے لیے فنڈ جمع کریں گے جس سے آنے والے وقت کے لئے نئے طلبہ کے لیے کچھ اچھا کیا جاسکے۔
16 ایم ڈی کی نشستیں میں اضافہ ہوا ہے پہلے یہاں صرف 16 نشست ہوتی تھی اب ماشاءاللہ 32 نشستیں ہیں اور چار نشستیں پی جی ڈپلومہ کی ہیں۔ 15 -16 فروری کو انشاءاللہ پہلی بار اجمل خان طبیہ کالج کے علمنی میٹ کرنے جا رہے ہیں جس میں ہندوستان سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے تمام اولڈبوائز آئیں گے۔