اردو

urdu

'انڈین ہسٹری کانگریس کی بے حرمتی کی گئی'

By

Published : Jan 2, 2020, 7:42 PM IST

انڈین ہسٹری کانگریس کے 80 ویں اجلاس میں معروف مورخ عرفان حبیب اور کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان کے مابین اختلافات کی وجہ کیا تھی، جانیے پروفیسر عرفان حبیب کی زبانی۔

عرفان حبیب اور عارف محمد خان کے درمیان متنازع
عرفان حبیب اور عارف محمد خان کے درمیان متنازع

معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ہسٹری کانگریس ایک بہت پرانا ادارہ ہے جو 1935 میں قائم ہوا۔

عرفان حبیب اور عارف محمد خان کے درمیان متنازع

پروفیسر عرفان حبیب نے بتایا کہ اجلاس میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صدرجمہوریہ اور نائب صدر بھی آئے، اس میں تو گورنر اور وزیراعلی بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہسٹری کانگریس میں گورنر کو کوئی دعوت نامہ نہیں دیا لیکن وہ ہماری میزبان یونیورسٹی تھی جس کے وہ چانسلر ہیں، تو وائس چانسلر نے یہ کہا کہ کیوں کہ آپ ہماری یونیورسٹی کے چانسلر ہیں تو آپ ہماری طرف سے آئے۔

عرفان حبیب نے کہا کہ عارف محمد خان چاہتے تھے کہ چاروں طرف سے پولیس ہوں اور ہسٹری کانگریس کے عہدیداران بھی اسٹیج پر نہ بیٹھے۔ صرف وہی ہو تو ان کو نہیں آنا چاہیے۔ پہلے تو انہوں نے یہ کیا کہ انہوں نے سوائے ہسٹری کانگریس کے کسی کو اسٹیج پر نہیں بیٹھنے دیا۔ ہمارے قواعد کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دی پولیس نے قبضہ کر لیا، بیریئرز لگا دیئے۔ میں نیچے بیٹھا تھا۔ میں باضابطہ صدر تھا۔ مجھ کو تو اوپر جانا ہی تھا۔ اوپر میں بھی نہیں جا سکتا جب تک گورنر صاحب نہ آئے، ان کے پیچھے جانے سے میں نے انکار کر دیا۔

عرفان نے کہا کہ عارف محمد خان بہت زیادتی کی ہے۔ انھوں نے یہ نہیں سمجھا یہ ایک علمی ادارہ ہے ان کے اپنے قواعد ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرفان سے پہلے کبھی کسی گورنر نے ایسا نہیں کیا، وہ خود آئے اور بیٹھ گئے۔

عرفان حبیب نے عارف پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے ہی یہ طے کر لیا کہ وہ کب بولیں گے اور کیا بولیں گے اور جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو کہیں تاریخ سے نہیں تھا۔

عرفان حبیب کے مطابق عارف محمد نے بجائے ہسٹری کانگریس کے خوش آمدید تقریر کرنے کے یہ کہنا شروع کر دیا مسلمان بہت خراب ہیں۔

عرفان کا الزام ہے کہ عارف نے مولانا آزاد کی جس بات کو کوڈ کیا وہ پہلے سے ہی فیبریکیٹیڈ ہے۔ مولانا آزاد نے ایسا کبھی نہیں کہا کہ مسلمان گندا پانی ہوتے ہیں۔

عرفان حبیب آگے بتاتے ہیں کہ انہوں نے عارف خان کو متنبہ کیا کہ آپ اس پر کہیے جو آپ کو خوش آمدید تقریر میں کہنا ہے۔ عرفان حبیب کا الزام ہے کہ اس پر پولیس والوں نے نہیں جانے نہیں دیا۔ اس کے بعد عرفان حبیب نے عارف سے کہا کہ اگر آپ کو یہی سب مسلمانوں کے بارے میں کہنا ہے تو آپ گوڈسے کو کوڈ کیجے مولانا آزاد کو کیوں کوڈ کر رہے ہیں۔

عرفان حبیب نے کہا کہ جب عارف محمد خان یہ سب کہ رہے تھے تو یہ بات لوگوں کو اتنی ناگوار گزری کہ تقریبا 1500 مندوبین تھے سب کھڑے ہو گئے اور عارف کی تقریر ختم ہوئی اور چلے گئے۔

عرفان حبیب نے مزید کہا کہ کانگریس بہت اچھی ہوئی۔ وہ کیرالہ حکومت کا بہت شکر گزار ہوں جب آر ایس ایس والوں نے اندر آنے کی کوشش کی تو انہوں نے پولیس والوں کو تعینات کر دیا اور آر ایس ایس والوں کو اندر نہیں آنے دیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details