معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ہسٹری کانگریس ایک بہت پرانا ادارہ ہے جو 1935 میں قائم ہوا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے بتایا کہ اجلاس میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صدرجمہوریہ اور نائب صدر بھی آئے، اس میں تو گورنر اور وزیراعلی بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہسٹری کانگریس میں گورنر کو کوئی دعوت نامہ نہیں دیا لیکن وہ ہماری میزبان یونیورسٹی تھی جس کے وہ چانسلر ہیں، تو وائس چانسلر نے یہ کہا کہ کیوں کہ آپ ہماری یونیورسٹی کے چانسلر ہیں تو آپ ہماری طرف سے آئے۔
عرفان حبیب نے کہا کہ عارف محمد خان چاہتے تھے کہ چاروں طرف سے پولیس ہوں اور ہسٹری کانگریس کے عہدیداران بھی اسٹیج پر نہ بیٹھے۔ صرف وہی ہو تو ان کو نہیں آنا چاہیے۔ پہلے تو انہوں نے یہ کیا کہ انہوں نے سوائے ہسٹری کانگریس کے کسی کو اسٹیج پر نہیں بیٹھنے دیا۔ ہمارے قواعد کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دی پولیس نے قبضہ کر لیا، بیریئرز لگا دیئے۔ میں نیچے بیٹھا تھا۔ میں باضابطہ صدر تھا۔ مجھ کو تو اوپر جانا ہی تھا۔ اوپر میں بھی نہیں جا سکتا جب تک گورنر صاحب نہ آئے، ان کے پیچھے جانے سے میں نے انکار کر دیا۔
عرفان نے کہا کہ عارف محمد خان بہت زیادتی کی ہے۔ انھوں نے یہ نہیں سمجھا یہ ایک علمی ادارہ ہے ان کے اپنے قواعد ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرفان سے پہلے کبھی کسی گورنر نے ایسا نہیں کیا، وہ خود آئے اور بیٹھ گئے۔