رامپور:ریاست اترپردیش کے رامپور میں قائم گورنمنٹ گرلز پی جی کالج میں ساہتیہ اکادمی دہلی کے تعاون سے قومی سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔ اردو شاعری میں بھارتی ثقافت کے موضوع پر ہندی اور اردو زبان و ادب سے وابستہ دانشوروں نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کرکے بتایا کہ اردو شاعری میں بھارتی ثقافت کس طرح سے رچی بسی ہے۔ Symposium held at Rampur
رامپور کے گورنمنٹ گرلز پی جی کالج میں تقریباً آٹھ برس بعد ساہتیہ اکیڈمی دہلی کے تعاون سے ایک اہم سمپوزیوم کا انعقاد کیا گیا۔ 'اردو شاعری میں بھارتی ثقافت' کے موضوع پر منعقدہ اس سمپوزیم میں ہندی اور اردو زبان و ادب سے وابستہ دانشواران نے شرکت کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سمپوزیم کی آرگنائزر شعبہ اردو کی صدر ڈاکٹر رضیہ پروین نے سمپوزیم کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کافی عرصہ سے اس بات ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ مذکورہ موضوع پر معروف علمی شخصیات کے خیالات سے استفادہ کیا جائے۔ لہذا آج وہ خوبصورت موقع فراہم ہوا جب کالج کے آڈیٹوریم میں ملک کی علمی و ادبی شخصیات جنہوں نے ملک کی گنگا جمنی تہزیب کو زندہ رکھا ہوا ہے، جمع ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت میں متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسی لیے بھارت کو زبانوں کا عجائب گھر بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں اسلامی تہذیب نے زبان پر کافی اثر ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم رواداری قائم رکھنے کے لیے 75 ویں آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی دہلی کے چیف ایڈیٹر انوپم تیواری نے اپنے خطاب میں کہا کہ خیالات اور تہذیب کے درمیان اچھا تعلق قائم رکھنے کے لیے اردو نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اردو کو رابطہ اور عام بول چال کی زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو ایک شیریں اور خوبصورت زبان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو ہی بھارتی زبان ہے جس نے بھارت کا نام دنیا میں اپنی تہذیب و تمدن سے پھیلایا ہے۔ انہوں دعویٰ کیا کہ اردو بھارت میں ہی پیدا ہوئی ہے۔ انوپم تیواری نے کہا کہ اردو شاعری میں مندر، مسجد، ذات پات کی بات نہیں، اتحاد، اتفاق اور بھائی چارہ قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی ہے۔ وہ تہذیب کو فروغ دینے، تعلقات کو استوار و ہموار کرنے میں مدد کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کتنا پاکیزہ ہوتا ہے لیکن آج اسے ماپال کیا جا رہا ہے۔