اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے حسین آباد علاقے کے بیچ و بیچ واقع ستکھنڈا کی تاریخی عمارت اپنی بد قسمتی پر آج بھی آنسو بہا رہی ہے، اس عمارت کی تعمیر کا آغاز اودھ کے تیسرے نواب محمد علی شاہ نے کروایا تھا لیکن عمارت کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
بھارت میں نوابوں اور بادشاہوں کے دور میں تعمیر کردہ کئی ایسی خوبصورت اور تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں جن کے پیچھے کچھ دلچسپ داستان ضرور سنی سنائی جاتی ہے۔
اسی میں سے ایک نوابوں کے شہر لکھنؤ کی تاریخی عمارت ستکھنڈا بھی شامل ہے جو دیکھنے میں تو بے حد خوبصورت ہے لیکن آج بھی اپنی ادھوری تعمیر پر آنسو بہارہی ہے۔
اس عمارت کو لوگ ستکھنڈا کے نام سے جانتے ہیں، اودھ کے تیسرے نواب محمد علی شاہ کے دور حکومت میں لکھنؤ میں کئی نایاب تعمیرات کی گئی تھیں جس میں بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ اور لکھنؤ کے حسین آباد علاقے میں خوبصورت عمارتیں شامل ہیں۔
ان سب خوبصورت عمارتوں کا دیدار کرنے کے لیے نواب محمد علی شاہ نے اٹلی کے لیننگ ٹاور آف پیسا کی طرز پر ستکھنڈا کی تعمیر شروع کی لیکن ان کی حیات میں اس عمارت کی تکمیل ممکن نہ ہوسکی۔
جب سے اس عمارت کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تب سے نواب محمد علی شاہ مسلسل بیمار رہنے لگے لیکن ان کی یہ خواہش تھی کہ اپنی زندگی میں ہی وہ اس عمارت کو جلد از جلد مکمل طور پر تعمیر کروالیں تاکہ یہاں سے وہ عید اور محرم کے چاند کا دیدار کرسکیں اور باقی عمارتوں کا دیدار بھی اسی ایک عمارت سے کرسکیں۔
حالانکہ نواب محمد علی شاہ کی یہ خواہش ان کے دل میں ہی رہ گئی اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جس کے بعد نوابوں کے شہر کی یہ ستکھنڈا عمارت جو سات منزلہ تعمیر ہونی تھی وہ صرف چار منزلوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی، یہی وجہ سے آج بھی مورخین اس عمارت کو بدقسمت عمارت کے نام سے جانتے ہیں۔
لکھنؤ کے معروف مورخ روشن تقی کے مطابق سنہ 1837 تا سنہ 1842 کے درمیان تعمیر ہوئی۔ یہ ادھوری عمارت آج بھی اپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتی نظر آتی ہے۔