ماہر نفسیات پشپانجلی نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کورونا وبا کے درمیان لوگوں نے زیادہ خودکشی کی ہے اور اس کی مختلف وجوہات ہیں، بعض لوگ معاشی تنگی و حالات سے عاجز آکر خودکشی کیے، نوجوان طبقہ جو جذباتی طور پر کسی سے گہرا لگاؤ رکھتا تھا اسے دھوکا ملا اور خود کشی کی جانب رواں ہوگیا اور تیسری اہم چیز یہ ہے کہ بالی وڈ کے معروف اداکار سوشانت کی خودکشی کو میڈیا کوریج ہوئی اس میں معاملے کی حساسیت کو نظر انداز کیا گیا، جس کا سماج پر غلط اثرات مرتب ہوئے اور خودکشی کی جانب رجحان بڑھ گئے۔
انہوں نے کہا کہ خودکشی کرنا انتہائی بزدلانہ حرکت ہے۔ یہ سب سے غلط قدم ہوتا ہے۔ خود کشی کو کبھی درست نہیں کہا جاسکتا۔ جب انسان خود کشی کرتا ہے تو اس کو یہی مطلب ہوتا ہے کہ حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیا جو انسانی خصلت کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی زندگی میں ناموافق حالات کا ہونا زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے اس سے عاجز ہو کر اگر کوئی خود کشی کی جانب قدم اٹھاتا ہے تو یہ انتہائی بد ترین حرکت مانی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی سطح پر خودکشی کے خلاف ایک سوچ کا عام ہونا ضروری ہے کہ خودکشی ایک واحد ذریعہ مسائل کے حل کرنے کا نہیں ہیں بلکہ جب بھی ایسے خیالات آئیں تو ذاتی محاسبہ کریں لوگوں سے باتیں کریں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہیں زیادہ وقت گزاریں حالات سے لڑنے کی ہمت بنائیں اور نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کریں۔ اس سے نہ صرف ان کی خود کی زندگی بہتر ہوگی بلکہ ان کے اہل خانہ بھی خوش حال زندگی گزار سکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ بعض ایسے حالات ہوتے ہیں جب نوجوان عشق محبت کی پیچیدگیوں میں گرفتار ہوتا ہے لیکن جب دھوکہ ملتا ہے تو اس کے ذہن و دماغ میں یہی خیال آتا ہے شاید اس کی بغیر زندگی جینا بے کار ہے لیکن ایسا حقیقت میں نہیں ہے، کسی بھی شے کے کھونے کے بعد ہمیشہ اس سے بہتر ملنے کی توقع رہتی ہے اور یہ سچ کہ انسان کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ حالات کا سامنا کر اس سے لڑنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ ماہرنفسیات ہونے کی وجہ سے عوام یہ کہنا چاہوں گی کہ جب بھی خود کشی کرنے جیسے خیالات آئیں تو اس خیالات کو تبدیل کرنے کے لئے ہمیشہ آنے والے وقت کو بہتر تصور کریں ایسا کرنے سے نہ صرف منفی خیالات ذہن و دماغ سے دور ہوں گے بلکہ کہ امید کی کرنیں بھی روشن ہوگی۔