اردو

urdu

ETV Bharat / state

بزرگ سید علی داؤد، جنہیں سلطان مکہ سے جونپور لائے تھے

جونپور کی سر زمین پر بے شمار علماء و صوفیاء مدفون ہیں جنہوں نے مدت دراز تک اہل جونپور کو فیض پہنچایا اور جن کا شہرہ دور دور تک تھا۔ ان میں سے بیشتر کا بادشاہ وقت بھی مرید ہوا کرتا تھا، انہی میں سے ایک نام ہے سید علی داؤد کا۔

special story on syed ali dawood mazar in jaunpur
سید علی داؤد، جنہیں سلطان نے مکہ سے جونپور لائے تھے

By

Published : Oct 18, 2020, 8:00 PM IST

سید علی داؤد کو سلطان محمود شاہ شرقی جونپوری نے مکہ مکرمہ سے اہل و عیال کے ساتھ جونپور لائے تھے۔ سید علی داؤد عرب ملک سے تھے اور محمود شاہ شرقی کی بیگم بی بی راجے آپ سے بیعت بھی تھیں۔

دیکھیں ویڈیو

آپ تمام علوم ظاہری و باطنی اور صدری و معنوی کے سرچشمہ تھے اور فقہ میں عالی درجہ رکھتے تھے۔ محمود شاہ شرقی اور راجے بی بی کو آپ سے بے پناہ عقیدت و محبت ہو گئی تھی۔ آپ ہی کی خواہش پر ایک سنگین مسجد "نماز گاہ" کے نام سے محمود شاہ شرقی کی بیگم بی بی راجے نے اپنے محل سرا سے متصل 1450ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد سے متصل اتر دکھن خانقاہ و مدرسے کی عمارت بھی موجود تھی۔

سید علی داؤد کا سلسلہ نسب سید حسین اصغر ابن امام سید زین العابدین پر ختم ہوتا ہے۔ سید علی داؤد مرد بزرگ، حق شناس اور مخدوم وقت تھے اور انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اہل جونپور کی خدمت کی اور فیض پہنچایا۔

ان کے دو صاحبزادے تھے اور دونوں صاحبزادے امام وقت اور علومِ ظاہر و باطن میں اپنی مثال آپ رکھتے تھے، دونوں حضرات آپ کے بیحد فرمانبردار اور بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ سید علی داؤد کو محمود شاہ شرقی نے جاگیر دینا چاہا لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ 12 اشرفیاں جو تمہارے پاس محنت و مشقت کی کمائی ہوئی ہیں، اسے مجھے دے دو۔

بادشاہ نے وہ 12 اشرفیاں سید علی داؤد کو عنایت کر دیں۔ اسی 12 اشرفی سے انہوں نے لال دروازہ سے مغرب 3۔4 کلومیٹر کے فاصلہ پر اور جامع مسجد جونپور کے شمال میں بارہ بیگہ زمین خرید کر اپنے نام سے سید علی پور ایک موضع آباد کیا اور وہیں سکونت اختیار کی اور ایک خانقاہ بھی تعمیر کرائی۔

خانقاہ کا نام و نشان تو باقی نہیں ہے، البتہ موضع آج بھی ان کے نام سے موسوم ہے جو کثرتِ استعمال کی وجہ سے عوام میں سدلی پور کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔

اس وقت تمام اراضیات موریہ برادری کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ تاریخ داں مظہر آصف نے کہا کہ سید علی داؤد بہت بڑے فقیر گزرے ہیں۔

عرب کی سر زمین سے تشریف لائے۔ ان کے ہاتھوں پر بہت سارے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ بی بی راجے نے ان کے لئے ایک مسجد تعمیر کرائی، ان کے نام سے ایک محلہ آج بھی آباد ہے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں اس محلے میں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے اور دوسری دقت جونپور کے مسلمانوں کو اپنے اکابرین کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے اس کی دیکھ بھال نہیں ہو پائی۔

انھوں نے کہا کہ آثار قدیمہ کا اس کی طرف خیال بھی نہیں گیا، جبکہ ضرورت تھی کہ وہاں پر خانقاہ تعمیر کرائی جائے

فی الحال کوئی کام نہیں ہوا۔ امید ہے حکومت اور علاقے کے لوگ اس کی جانب رجوع کریں گے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مقامی نریندر کمار موریہ نے بتایا کہ پہلے اس مزار کی بہت ساری خوبیاں تھیں۔ لوگ مزار کی چہار دیواری دن میں تعمیر کرتے تھے اور رات میں از خود چہار دیواری گر جاتی تھی، خواب میں دیکھا گیا کہ چہار دیواری کے اندر نہیں رہیں گے۔

اس کے بعد لوگوں نے چہار دیواری تعمیر کرنا بند کر دیا۔ شادی کے وقت دولہا دلہن یہاں پر آکر منتیں مانگتے ہیں اور جمعرات کو ہم لوگ مزار پر چراغ روشن کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

احمد آباد: نابینا ڈاکٹرز کا جذبۂ خدمتِ خلق

مقامی بھانا دیوی نے بتایا کہ 'ہم چادر پوشی کرتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں۔' انہوں نے بتایا کہ 'موجودہ وقت میں مزار کی حالت خستہ ہے۔ صاف صفائی کا اہتمام نہیں کیا جا رہا ہے۔ مزار کے قریب سے ہی ایک گندا نالہ بہہ رہا ہے۔ مزار کی چہار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بے حرمتی ہو رہی ہے۔'

ABOUT THE AUTHOR

...view details