سید علی داؤد کو سلطان محمود شاہ شرقی جونپوری نے مکہ مکرمہ سے اہل و عیال کے ساتھ جونپور لائے تھے۔ سید علی داؤد عرب ملک سے تھے اور محمود شاہ شرقی کی بیگم بی بی راجے آپ سے بیعت بھی تھیں۔
آپ تمام علوم ظاہری و باطنی اور صدری و معنوی کے سرچشمہ تھے اور فقہ میں عالی درجہ رکھتے تھے۔ محمود شاہ شرقی اور راجے بی بی کو آپ سے بے پناہ عقیدت و محبت ہو گئی تھی۔ آپ ہی کی خواہش پر ایک سنگین مسجد "نماز گاہ" کے نام سے محمود شاہ شرقی کی بیگم بی بی راجے نے اپنے محل سرا سے متصل 1450ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد سے متصل اتر دکھن خانقاہ و مدرسے کی عمارت بھی موجود تھی۔
سید علی داؤد کا سلسلہ نسب سید حسین اصغر ابن امام سید زین العابدین پر ختم ہوتا ہے۔ سید علی داؤد مرد بزرگ، حق شناس اور مخدوم وقت تھے اور انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اہل جونپور کی خدمت کی اور فیض پہنچایا۔
ان کے دو صاحبزادے تھے اور دونوں صاحبزادے امام وقت اور علومِ ظاہر و باطن میں اپنی مثال آپ رکھتے تھے، دونوں حضرات آپ کے بیحد فرمانبردار اور بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ سید علی داؤد کو محمود شاہ شرقی نے جاگیر دینا چاہا لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ 12 اشرفیاں جو تمہارے پاس محنت و مشقت کی کمائی ہوئی ہیں، اسے مجھے دے دو۔
بادشاہ نے وہ 12 اشرفیاں سید علی داؤد کو عنایت کر دیں۔ اسی 12 اشرفی سے انہوں نے لال دروازہ سے مغرب 3۔4 کلومیٹر کے فاصلہ پر اور جامع مسجد جونپور کے شمال میں بارہ بیگہ زمین خرید کر اپنے نام سے سید علی پور ایک موضع آباد کیا اور وہیں سکونت اختیار کی اور ایک خانقاہ بھی تعمیر کرائی۔
خانقاہ کا نام و نشان تو باقی نہیں ہے، البتہ موضع آج بھی ان کے نام سے موسوم ہے جو کثرتِ استعمال کی وجہ سے عوام میں سدلی پور کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔
اس وقت تمام اراضیات موریہ برادری کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ تاریخ داں مظہر آصف نے کہا کہ سید علی داؤد بہت بڑے فقیر گزرے ہیں۔