سر سید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں ہوئی اور ان کی وفات 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوئی۔ سرسید کا مزار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخی جامع مسجد میں موجود ہے۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کو اپنا میدان عمل بنایا جہاں 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898 کو انتقال ہوا۔Sir Syed Ahmad Khan Birthday
سرسید احمد خاں کو محسن بر صغیر کہا جاتا ہے، سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص مسلمانان ہند کی سر بلندی کے لیے ایک صدی قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ تیار کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا شمار جدید بھارت کے معماروں میں ہوتا ہے۔
سرسید احمد خاں کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں ہوئی تھی۔آج ان کی پیدائش کے 205 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا نام مع القاب و آداب (سرسید) پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد سید احمد نے ملازمت اختیار کر لی۔ پہلے وہ ریڈر ہوئے پھر منصف یا جونئیر حج۔ انھوں نے نہایت تندہی سے اپنے فرائض منصبی کو انجام دیا اور برابر لکھتے بھی رہے۔ ان کو ہمیشہ یہ امید رہی کہ لکھتے رہنے سے ان کی آمدنی بڑھتی رہے گی۔ سید احمد نے ایک کتاب آثار الصنادید کے نام سے دہلی کی یادگار عمارتوں پر لکھی اور پھر آئین اکبری مصنفہ ابوالفضل کی تدوین کی۔ انہوں نے دہلی کو اپنا موضوع فکر بنایا اور اس کی عظمت رفتہ کے آثار و نقوش کو بقائے دوام عطا کرنے کے اسباب فراہم کیے۔ سید احمد نے عظمت رفتہ کی یادوں کوتازہ کرنے کے لیے ایران اور عرب کی سرزمین کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے آبا و اجداد کا مسکن رہ چکی تھی۔انہوں نے دہلی کے بادشاہوں کی واقعہ نگاری کرتے وقت اپنی کتاب کی ابتدا میں ہندو مہاراجاؤں کو یاد کیا ہے۔
امتیازی اور خصوصی مطالعے کے لیے وہ اورنگ زیب کے بجائے اکبر کا انتخاب کرتے ہیں،سید احمد خان کے معاصر شاعر مرزا غالب نے آئین اکبری پر جو تقریظ لکھی اس میں غالب نے کہا کہ اس وقت قدیم بادشاہوں کے بجائے انگریز زیادہ قابل مطالعہ ہیں۔