سرسید احمد خان جب انگلینڈ گئے تو اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ گئے، جہاں ان دونوں نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کا بھی دورہ کیا اور وہاں کی تعلیمی نظام کو دیکھا۔
سرسید نے محسوس کیا کہ قانون کی تعلیم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیے بہت ضروری ہے، اس کام کو کرنے کے لیے انہوں نے جسٹس اسٹریٹ، جسٹس محمود اور جناب آرتھر اسٹریچی، برایٹ لاء، جو کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے کی ایک کمیٹی تشکیل کی، جس کا مقصد تھا کہ وہ کالج میں قانون کی تعلیم کے سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کریں۔
اے ایم یو قانون فیکلٹی کے ڈین پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سر سید احمد خان نے جو کمیٹی تشکیل دی اس کمیٹی نے ایک تفصیلی سفارش 5 مارچ 1891 کو دی، جس کے بعد قانون کی کلاسز کا افتتاح جسٹس ڈگلس اسٹیٹ نے 29 دسمبر 1891 کو کیا۔
چوں کہ سید محمود بذات خود جج تھے اور وہ کالج کے قیام کی کمیٹی میں شامل تھے۔ اس لیے انہوں نے قانون کی تعلیم میں دلچسپی دکھائی اور اپنی ذاتی لائبریری، جس کی قیمت اس وقت دس ہزار روپئے تھی، کا ایک بڑا حصہ کالج کو عطیہ کر دیا اور اسی کے ساتھ ساتھ پندرہ سو روپے کی رقم قانون کی کلاس میں چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے مختص کر دی۔
شکیل احمد صمدانی نے بتایا کہ سنہ 1952 میں پروفیسر حفیظ الرحمن نے صدر شعبہ کا چارج لیا اس وقت یونیورسٹی میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح قانون کی تعلیم کی حالت ٹھیک نہیں تھی اور قانون کی کلاس دوسرے شعبوں کے کمرے میں ہوتی تھی اور اس وقت ایل ایل بی کا کورس دو سال کا ہوتا تھا اور قانون کی تعلیم کا مقصد صرف جونیئر وکلاء پیدا کرنا تھا۔