19 دسمبر 2019 کو دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج ہوا، جو شام ڈھلتے ڈھلتے پرتشدد ہوگیا تھا۔ نتیجتاً کئی کار اور بسوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، جس کے بعد لکھنؤ پولیس نے سخت کاروائی کرتے ہوئے مظاہرین کی شناخت کر کے ان کی تصویر شہر کے مختلف چوراہوں پر لگایا تھا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن زینب کے نابالغ بھائی سعد نے بتایا کہ، 'پولیس نے پہلے گھر میں اور پھر تھانہ میں بہت زیادہ مارا پیٹا ہے۔ مجھے اور میرے والد کو الگ الگ تھانہ میں رکھا گیا تھا۔ صبح مجھے گھر بھیج دیا گیا لیکن والد صاحب کو نہیں چھوڑا گیا۔'
پولیس کاروائی سے سوال بھی اٹھانے لگے ہیں کیونکہ سماجی کارکن زینب صدیقی کو گرفتار کرنے گئی پولیس نے اہل خانہ سے مار پیٹ کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے ریشمہ صدیقی نے بتایا کہ، 'شام پانچ بجے کے بعد پولیس ہمارے گھر آئی اور میری بیٹی زینب کے بارے میں پوچھ گچھ کر کے چلی گئی تھی۔'
انہوں نے بتایا کہ، 'دوبارہ آٹھ سے دس لوگ بغیر پولیس وردی کے آئے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ آر ایس ایس کے غنڈے تھے یا بی جے پی کے لیکن انہوں نے ہمارے اوپر بربریت کی ساری حدیں پار کر دی تھی۔'
زینب کی ماں نے کہا کہ، 'مغرب کی نماز پڑھ کر میرے شوہر آ رہے تھے، جنہیں زبردستی پکڑ کر گاڑی میں بیٹھایا جا رہا تھا لیکن تبھی چیخ و پکار سن کر محلے والے بھی آ گئے، تبھی حسن گنج سے مزید پولیس فورسز آ گئی اور انہوں نے لاٹھی چارج کر دیا۔'