علیگڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کا شمار جدید ہندوستان کے معماروں میں ہوتا ہے، بلکہ سرسید احمد خاں کو برصغیر کا محسن بھی کہا جاتا ہے۔ سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کی سربلندی کے لیے ایک سو سال قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ پیش کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔ سرسید احمد خاں کی پیدائش سترہ اکتوبر 1817 کو راجدھانی دہلی کے ایک معزز گھرانہ میں ہوئی تھی۔ اس سال ان کی پیدائش کے 204 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا سرسید نام القاب و آداب کے ساتھ پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی تاندہ و زندہ ہے۔ ان
یہ بھی پڑھیں:
Sir Syed Ahmad Khan Birth Anniversary سر سید کی 206 ویں یوم پیدائش
اپنے والد کے انتقال کے بعد سید احمد نے ملازمت اختیار کرلی۔ پہلے وہ ریڈر ہوئے پھر منصف یا جونئیر جج بنے۔ انھوں نے نہایت تندہی سے اپنے فرائض منصبی کو انجام دیا اور برابر لکھتے بھی رہے۔ سرسید کو ہمیشہ یہ امید رہی کہ لکھتے رہنے سے ان کی آمدنی بڑھتی رہے گی۔ سید احمد نے ایک کتاب آثار الصنادیدکے نام سے دہلی کی یادگار عمارتوں پر لکھی اور پھر آئین اکبری مصنفہ ابوالفضلکی تدوین کی۔ سرسید نے دہلی کو اپنا موضوع فکر بنایا اور اس کی عظمت رفتہ کے آثار ونقوش کو بقاء و دوام عطا کرنے کے اسباب فراہم کیے۔ سید احمد نے عظمت رفتہ کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ایران اور عرب کی سرزمین کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے آبا و اجداد کا مسکن رہ چکی تھی۔ انھوں نے دہلی کے بادشاہوں کے واقعات کو لکھتے وقت اپنی کتاب کی ابتدا میں ہندو مہاراجاؤں کو یاد کیا۔ امتیازی اور خصوصی مطالعہ کے لیے وہ اورنگزیب کے بجائے اکبر کا انتخاب کرتے ہیں۔ سید احمد خاں کے ہم عصر شاعر مرزا غالب نے آئینِ اکبری پر جو تقریظ لکھی اس میں غالب نے کہا کہ اس وقت قدیم بادشاہوں کے بجائے انگریز زیادہ قابل مطالعہ ہیں۔