اردو

urdu

Sir Syed Day 2023 سر سید احمد خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 17, 2023, 1:13 PM IST

قوم و ملت کے محسن، مفکر و مدبر، سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش کے موقع پر تعلیم و تدریس سے تعلق رکھنے والے افراد اور دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلے علیگ برادران کے بشمول پورا ملک سرسید ڈے منارہا ہے اور انہیں یاد کرکے خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ Sir Syed Ahmad Khan services are unforgettable

سنہ 1898 میں سرسید کے انتقال
سنہ 1898 میں سرسید کے انتقال

علیگڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کا شمار جدید ہندوستان کے معماروں میں ہوتا ہے، بلکہ سرسید احمد خاں کو برصغیر کا محسن بھی کہا جاتا ہے۔ سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کی سربلندی کے لیے ایک سو سال قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ پیش کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔ سرسید احمد خاں کی پیدائش سترہ اکتوبر 1817 کو راجدھانی دہلی کے ایک معزز گھرانہ میں ہوئی تھی۔ اس سال ان کی پیدائش کے 204 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا سرسید نام القاب و آداب کے ساتھ پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی تاندہ و زندہ ہے۔ ان

یہ بھی پڑھیں:

Sir Syed Ahmad Khan Birth Anniversary سر سید کی 206 ویں یوم پیدائش

اپنے والد کے انتقال کے بعد سید احمد نے ملازمت اختیار کرلی۔ پہلے وہ ریڈر ہوئے پھر منصف یا جونئیر جج بنے۔ انھوں نے نہایت تندہی سے اپنے فرائض منصبی کو انجام دیا اور برابر لکھتے بھی رہے۔ سرسید کو ہمیشہ یہ امید رہی کہ لکھتے رہنے سے ان کی آمدنی بڑھتی رہے گی۔ سید احمد نے ایک کتاب آثار الصنادیدکے نام سے دہلی کی یادگار عمارتوں پر لکھی اور پھر آئین اکبری مصنفہ ابوالفضلکی تدوین کی۔ سرسید نے دہلی کو اپنا موضوع فکر بنایا اور اس کی عظمت رفتہ کے آثار ونقوش کو بقاء و دوام عطا کرنے کے اسباب فراہم کیے۔ سید احمد نے عظمت رفتہ کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ایران اور عرب کی سرزمین کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے آبا و اجداد کا مسکن رہ چکی تھی۔ انھوں نے دہلی کے بادشاہوں کے واقعات کو لکھتے وقت اپنی کتاب کی ابتدا میں ہندو مہاراجاؤں کو یاد کیا۔ امتیازی اور خصوصی مطالعہ کے لیے وہ اورنگزیب کے بجائے اکبر کا انتخاب کرتے ہیں۔ سید احمد خاں کے ہم عصر شاعر مرزا غالب نے آئینِ اکبری پر جو تقریظ لکھی اس میں غالب نے کہا کہ اس وقت قدیم بادشاہوں کے بجائے انگریز زیادہ قابل مطالعہ ہیں۔

سرسید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر مسلم یونیورسٹی

سید احمد نے اس تقریظ کو ناپسند کیا اور اسے واپس کر دیا لیکن سال 1857 نے ثابت کردیا کہ غالب کا خیال درست تھا اور سید احمد کو اس خیال سے متفق ہونا پڑا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کو پوری دنیا میں ایک شناخت حاصل ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمد خاں نے ہر وہ ممکن کوشش کی اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کر سکتے تھے۔ علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں آٹھ اور دس فروری 1884 کو سرسید احمد خاں نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں سرسید نے علی گڑھ نمائش میں ہی ایک کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

سنہ 1898 میں سرسید کے انتقال

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ سرسید احمد خاں نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقے ہو سکتے تھے وہ سب اپنائے اور انہوں نے چوبیس مئی 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا جب کہ سال 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کے انتقال سال 1898 میں ہوا تھا اس کے بائیس برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو آج اپنی ایک سو سالہ تقریب منارہا ہے۔ سرسید احمد خاں کو آج پوری دنیا ان کے علمی اور فکری کارناموں کے سبب خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details