بریلی میں اپنے متعلیقن سید وضاحت حسین رضوی کی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے صدر نے کہا ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے مذہب کے بارے میں تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔
بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کی فلاح اور بہبود کے بابت فکرمند رہے۔ اپنے مذہبی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرے۔
وہیں موجودہ صورت حال میں اُلجھے پورے سماج اور خاص طور پر مذہبی طور طریقوں، نظریات، خیالات اور مسلکوں میں تقسیم مسلمانوں کے بابت سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے اندرونی معاملات کو عوامی سطح پر نہیں لانا چاہیے۔ کیوں کہ حکومت کی نظر میں تمام مسلک اور مختلف نظریات کے مسلمان یکساں ہیں۔
اُنہوں نے اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مسلم پرسنل لا بورڈ پر کہا کہ مرکزی حکومت شیعہ اور سنی سینٹرل وقف بورڈ کو ضم کرنا چاہتی ہے، یہ فیصلہ ہمیں منظور نہیں ہے۔ کیوںکہ سنی اور شیعہ مسلک کے تمام تقریبات اور نظریات مختلف ہیں۔
اب سے تقریباً چالیس برس قبل بھی مسلمانوں کے مذہبی اور ذاتی حقوق کے حل کے لیے ایک بورڈ تشکیل دیا گیا تھا تو وہاں تمام لوگ اس بات پر متعدد مرتبہ اعتراض ظاہر کرتے تھے کہ پرسنل لا بورڈ میں شیعہ قبول نہیں ہیں۔ ہم چالیس برس تک نیند میں سونے کے بعد جاگے اور آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کو وجود میں لایا گیا۔'
اُنہوں نے آگے کہا کہ ہمارا ٹکراؤ سُنّی، دیوبندی، حنفی یا کسی سے بھی نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ حکومت سے ہے۔ ہمیں جو کہنا ہے، وہ حکومت سے کہنا ہے۔ ہم محبت اور خلوص سے ہر مسئلہ کا حل چاہتے ہیں۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت مسلمانوں کی تعداد 20 سے 22 فیصد مانتی ہے، اُن میں ایک تہائی شیعہ حضرات بھی شامل ہیں۔ اسی اعتبار سے اُن کے سماج کو بھی ہر سطح پر حصّہ داری ملنی چاہیے۔
شیعہ برادری کا حکومت سے مطالبہ مولانا سید صائم مہندی نقوی نے کہا کہ حکومت کو اپنا کوئی بھی حکم یا منصوبہ شیعہ اور سنی مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ دونوں مسلک میں تمام باتیں مختلف ہیں۔
مثلاً سنیوں میں طلاق ثلاثہ ہے، لیکن شیعاؤں میں نہیں ہے۔ ہمارے یہاں نکاح آؔسان ہے، لیکن طلاق مشکل، جبکہ سنیوں میں نکاح اور طلاق دونوں آسان ہیں۔ ایک اور سوال پر اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے مطالبات کہنے کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو ہم سڑک یا ٹرینوں کا راستہ روکنے کے بجائے اپنی جگہ پر ہی احتجاج کرتے ہیں اور اپنی بات حکومت تک پہنچاتے ہیں۔
'ہمارے امام باڑوں میں اتنی گنجائش ہے کہ ہزاروں لوگ آتے ہیں اور کسی کو ان کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں ہوتا ہے،لہذا، سڑک پر احتجاج کرکے عام آدمی کو اپنی بات کہنے کے لئے ہراساں کرنا مناسب نہیں ہے۔'
اس کے علاوہ اُنہوں نے کورونا کے دور میں بند عبادت گاہوں کے بابت بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام مذاہب کی طرز پر شیعہ حضرات کو بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔
ابھی تک حکومت نے نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، مساجد میں دو نمازیوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ قائم کرنے کی شرط پر نماز جمعہ ادا نہیں ہو سکتی ہے، کیوں کاندھے سے کاندھا ملاکر نماز ادا کرنے سے ہی نماز جمعہ ادا ہوتی ہے۔
لہٰذا کم از کم شیعہ حضرات کے پانچ نمازیوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اتر پردیش حج کمیٹی اور اقلیتی کمیشن میں چیئرمین کے عہدے پر تقرری کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ کیوں کہ جب کوئی عہدہ خالی ہوتا ہے تو اس سے متعلق تمام کام متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کی فلاح کے لیے یہ دونوں خالی عہدے بھی پر ہونے چاہیے۔
'ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کس مسلک کے لوگوں کو ان عہدوں پر فائز کیا جائےگا۔'