اخلاق محمد خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے اور انہوں نے اے ایم یو میں اساتذہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی۔
شعبہ اردو میں لیکچرر، ریڈر سے ترقی پا کر پروفیسر کے ساتھ صدر شعبہ بھی رہے۔ شہریار شعبہ اردو اے ایم یو سے 1996 میں ریٹائر ہوئے۔
اخلاق محمد خان (شہریار) کا اے ایم یو سے تعلق۔
1۔ طالب علم
2۔ لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر (شعبہ اردو)
3۔ سربراہ (شعبہ اردو)
4۔ ایڈیٹر (فکرونظر)
5۔ ممبر انچارج (پی آر او دفتر)
ایوارڈز۔
1۔ ساہتیہ اکیڈمی (1987)۔
2۔ گیان پیٹ ایوارڈ (2008)۔
اخلاق محمد خان اردو دنیا کے معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی اپنی خدمات انجام دی۔ وہ فکر و نظر کے ایڈیٹر بھی رہے۔
شہریار صاحب نے اپنے دوست مظفر علی کی فرمائش پر فلموں سے وابستگی اختیار کی۔ فلم امراؤ جان کی غزل 'ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں' کافی مشہور ہوئی۔ یہ غزل شہریار نے لکھی تھی جو اس قدر مقبول ہوئی کہ آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔
شاعر شہر یار کو ساہتیہ اکیڈمی (1987) اور گیان پیٹھ ایوارڈ (2008) سے بھی نوازا گیا۔
غورطلب ہے کہ شہریار علی گڑھ کے آخری ایسے شخص تھے جن کو اردو کے لیے گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اب تک اردو میں کل پانچ لوگوں کو 'گیان پیٹھ ایوارڈ' سے سرفراز کیا گیا ہے جن میں سے تین کا تعلق علی گڑھ سے ہے۔ قرۃالعین حیدر، شہریار اور علی سردار جعفری۔
اخلاق محمد خان (شہریار ) کے یوم پیدائش کے موقع پر شعبہ اردو اے ایم یو کے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ '13 فروری 2012 کو شہریار صاحب ضرور جسمانی طور سے ہم سے دور ہو گئے ہیں لیکن ان کی یادیں، ان کی محبتیں، ان کی شفقتیں اور ان کا تخلیقی کام جو ہمارے دلوں میں ہی نہیں اردو ادب کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔'
پروفیسر سراج اجملی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ شہریار صاحب کا اے ایم یو سے اور شعبہ اردو سے کئی حیثیتوں سے تعلق رہا۔ پہلی باحیثیت طالب علم، دوسری اساتذہ۔