لکھنؤ:سیمنار کا آغاز فاؤنڈیشن فار سوشل کئیر کے سی ای اومحمد عمر صدیقی کے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ اس میں انہوں نے طب یونانی کے طریقہ علاج و معالجہ کی موجودہ وقت میں اہمیت و افادیت پر تفصیلی روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ طب یونانی کا جس طرح ماضی تابناک تھا اسی طرح مستقبل بھی روشن ہوگا، ملک و بیرون ملک میں عوام الناس کی کثیر تعداد دیگر طریقہائے علاج سے مایوس ہوکر طب یونانی کی جانب راغب ہورہی ہے۔
سمینار میں معروف ماہر طب اور جامعہ ہمدرد کے سابق ڈین پروفیسرشاکر جمیل نے کلیدی خطبہ پیش کیا ،جس میں انہوں نے طب یونانی میں موجود طریقہ علاج کو نسخہ کیمیا و نایاب قرار دیتے ہوئے کہاکہ ماہرین طب نے سماج سے بیماریوں کے خاتمے میں جو کردار ادا کیا ہے۔وہ یقینا ناقابل بیان ہے،طب یونانی ہی وہ منفر د طریقہ علاج فراہم کرتا ہے جو مریض کوادویہ کے منفی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے، نیز قوت دافعہ کو تقویت فراہم کرتاہے،پروفیسر شاکر جمیل نے طب یونانی کے میدان میں اپنے چار دہائیوں پر مشتمل سفر کے تجربات کوتفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ طب یونانی کا مستقبل روشن و تابناک ہے اور آنے والے وقت میں مزید امکانات و مواقع موجود ہیں جس سے استفادہ آسان رہے گا۔
سمینار کی پہلی نشست تحقیقی مقالوں پر مشتمل رہی جس میں ڈاکٹر آمنہ ازہر نے امراض جلد،ڈاکٹر فاطمہ رفیق نے موٹاپے کا علاج،ڈاکٹر سمرین خان نے چہرے کے مہاسے و دانے، ڈاکٹر محمد اشہد نے درد کمر میں حجامہ کا کردار اور ڈاکٹر مہر النساء نے دوران حمل قے کی پریشانیا ں جیسے عنوانات پر تفصیلی مقالہ پیش کیااور ان تمام امراض کا حل طب یونانی میں پیش کیا۔