2022 کے اسمبلی انتخابات میں اتر پردیش کے تقریبا 90 فیصد مسلمانوں نے متحدہ طور پر سماج وادی پارٹی کو اس اعتماد پر ووٹ دیا تھا کہ وہ ان کی آواز بلند کرےگی،اور ان کی حقوق کی لڑائی لڑی گی، تاہم گزشتہ 23 مئی سے 31 مئی تک اسمبلی کی کاروائی جاری رہی،اور حزب اختلاف کے رہنما اکھلیش یادو اور 34 مسلم اسمبلی اراکین نے مسلمانوں کے مسائل پر بات چیت نہیں کی،نہ ہی حکومت سے جواب طلب کیا، اور نہ ہی سڑکوں پر مسلمانوں کی حقوق اور ان کی استحصال پر احتجاجی مظاہرہ کیا، جس سے اب مسلمانوں کے مابین بے چینی ہے۔ 23 جون کو ریاست کی دو اہم پارلیمانی نشست پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں، جس پر سیاسی ماہرین کی متعدد رائے ہیں ،تاہم یہ مانا جارہا ہے کہ مسلم ووٹ دونوں نشتوں پر فیصلہ کن ہوں گے۔
Distance of Muslim voters from Samajwadi Party in by-Elections
اتر پردیش کے رام پور اور اعظم گڑھ میں 23 جون کو ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں،دونوں ہی نشستوں پر سماجوادی پارٹی کا قبضہ رہا ہے، رام پور سے اعظم خان اور اعظم گڑھ سے اکھلیش یادو سے رکن پارلیمان رہے ہیں، لیکن اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد دونوں نے پارلیمان کی رکنیت سے استعفی دے کر کے اسمبلی میں بطور ارکان اسمبلی کے طورپر حلف لیا جس کے بعد اب الیکشن کمیشن کی جانب ضمنی انتخابات منعقد کرائے جارہے ہیں۔
ریاست کی دو اہم نشستوں پر ضمنی انتخابات اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ سماجوادی پارٹی کا ان دونوں نشستوں پر برسوں سے قبضہ رہا ہے،مگر موجودہ دور میں حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ سماجوادی پارٹی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس انتخاب کے اشتہاری مہم میں نہ ہی اکھلیش یادو شامل ہوئے اور نہ ہی بی ایس پی سربراہ مایاوتی شامل ہوئیں، جبکہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ نے اعظم گڑھ اور رامپور دونوں جگہ انتخابی جلسہ کیا اور اپنے انداز میں سیاسی جماعتوں پر تنقید کی۔
ماضی قریب میں اتر پردیش میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں جس طریقے سے مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا ،کیا وہ ضمنی انتخابات میں بھی ویسے ہی مسلمان سماجوادی پارٹی کو وؤٹ کریں گے اس سوال پر سینئر صحافی عبید اللہ ناصر بتاتے ہیں کہ انتخابات کے بعد سے حالات تبدیل ہوئے ہیں اور مسلمانوں کا اعتماد سماجوادی پارٹی سے اٹھ چکا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چاہے وہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا معاملہ ہو، یا کانپور اور پریاگراج میں پولیس کی یکطرفہ کاروائی کا معاملہ ہو کسی بھی مسئلہ پر سماج وادی پارٹی کھل کر مسلمانوں کی حمایت میں نہیں آئی۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے، لیکن کسی بھی مسئلہ پر سماجوادی پارٹی نے اسٹینڈ نہیں لیا،ساتھ ہی پارٹی کے مسلم اراکین نے بھی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا اعتماد پارٹی سے اٹھ چکا ہے، اب وہ کسی تیسرے آپشن کی تلاش میں ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ بی جے پی یا بی ایس پی کی جانب رخ کریں۔ عبیداللہ ناصر بتاتے ہیں کہ اگر سماج وادی پارٹی ان دونوں نشستوں کو کھوتی ہے تو بی جے پی 2024 پارلیمانی انتخابات کے لیے ایک بڑا پیغام کے طور پر بھی اس کامیابی کو شمار کرے گی۔