وہ ہندو ہے وہ مسلمان ہے
ایک گیتا پڑھتا ہے تو ایک پڑھتا قرآن ہے
کیوں بھولے ہو لہو کا رنگ ہے سب کا ایک
مذہب سے بھی بڑا اتحاد کا پیغام ہے
یہ لائنز سہارنپور کے ان سینکڑوں مسلم کاریگروں پر صادق آتی ہیں جو لکڑی کے منادر بنا کر ہندو مسلم اتحاد کی مثال پیش کررہے ہیں۔
مندر ساز مسلم کاریگر، ویڈیو یہ وہ لوگ ہیں جو لکڑی کے نقش و نگار کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور مندروں پر خوبصورت نقاشی کرکے بھگوان کا آشیانہ بنا رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان مندروں کو بنانے والے 90 فیصد سے زیادہ لوگ مسلمان ہیں۔
نماز کے بعد دعاؤں کے لیے اٹھنے والے یہ ہاتھ جب مندروں پر نقش نگاری کر کے اسے خوبصورت بناتے ہیں تو لوگوں کی آنکھیں اس نقش و نگار سے نہیں ہٹتی۔
یہ مسلمان کاریگرمندروں پر اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے دو وقت کی روٹی بھی کما رہے ہیں۔ ان کاریگروں کے ذریعے بنائے گئے خوبصورت لکڑی کے منادر کی مانگ ملک و بیرون ممالک میں بھی ہے۔
یہ ہنرمند کاریگر شیشم اور نیم کی لکڑی تراش کر انہیں خوبصورت مندر کی شکل دیتے ہیں۔ لکڑی کو تراش کر ان کاریگروں کے ہاتھ اوم اور سواستِک کے نقوش تراش لیتے ہیں۔
ان کاریگروں کا کہنا ہے کہ وہ کئی نسلوں سے لکڑی کے مندر بنانے کے کام سے وابستہ ہیں۔ شیشم اور نیم کی لکڑی سے بنے ہونے کی وجہ سے یہ منادر 10 سے 15 برس تک خراب نہیں ہوتے۔
نماز کے بعد دعاؤں کے لیے اٹھنے والے ہاتھوں سے مندر کی تعمیر ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو مذہب کا حوالہ دے کر ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ ان کاریگروں کا کام معاشرے میں قومی یکجہتی کا بہترین پیغام ہے۔ اس لیے کسی نے سچ کہا ہے۔
ہمیں نیکی بنانی تھی لیکن بدی بنا بیٹھے
کہیں مندر بنا بیٹھے، کہیں مسجد بنا بیٹھے
انسانیت کو بھول کر لڑتے رہے یوں ہی
ہمیں انساں بنانے تھے مگر سرحد بنا بیٹھے