علیگڑھ:علیگڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ دینیات کے پروفیسر سعود عالم قاسمی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں صدقہ اور زکوٰۃ سے متعلق بتایا کہ صدقہ مال کے اس حصے کو کہا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ صدقہ کرنے سے اللہ تعالٰی اپنے غضب کو روک لیتا ہے۔ صدقہ اور زکوٰۃ ادا کرتے وقت انسان کو اظہار نہیں کرنا چاہیے، غریب کو جتانا نہیں چاہیے کہ ہم صدقہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ صدقہ اتنی رازداری سے ادا کرنا چاہیے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے اور مقصد ہونا چاہیے صرف اور صرف اللہ کی رضا۔ صدقہ دینے والے سے نہ امید شکر گزاری کی رکھے اور نہ بدلے کی یہ ہے صدقہ کی جان، تبھی یہ آدمی کی عبادت بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Ramadan 2023 صدقہ اور زکوٰۃ انسان کو پاکیزہ بناتا اور بلاؤں کو دور کرتا ہے
صدقہ اور زکوٰۃ دونوں انسان کو پاکیزگی بنانے اور بلاؤں کو دور کرنے کا ذریعہ ہے۔ صدقہ مال کے اس حصے کو کہا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ صدقہ کرنے سے اللہ تعالٰی اپنے غزاب کو روک لیتا ہے۔
سال میں کبھی بھی زکوٰۃ نکالی جا سکتی ہے لیکن زیادہ تر لوگ رمضان المبارک کے مہینے میں نکالتے ہیں۔ عید کے موقع پر ہم صدقۂ فطر نکالتے ہیں جو ایک کلو چھ سو تینتیس گرام جو ہم اناج کھاتے ہیں کا ہوتا ہے یا اس کی قیمت، بہتر یہ ہے کہ اس کو عید کی نماز سے قبل ادا کر دیا جائے تاکہ غریب اور ضرورت مند بھی عید منا سکیں اور اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ زکوٰۃ کے لیے ایک سال کا گزرنا ضروری ہے لیکن صدقۂ فطر کے لیے یہ شرط نہیں ہے، صدقہ فطر اپنے اور اپنی نابالغ اولاد کی جانب سے نکالی جاتی ہے۔
صدقہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک صدقہ نافلہ اور صدقہ واجبہ
صدقۂ نافلہ: ایک ایسا صدقہ ہے جو انسان پر واجب نہیں، یعنی وہ صدقہ جو ثواب کی نیت سے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی کو کوئی چیز دینا، چاہے وہ غریب ہو یا مالدار یا وہ رشتہ دار ہو۔ نفلی صدقات کسی بھی خیر کے کام میں صرف کیے جاسکتے ہیں، اس میں تملیک شرط نہیں۔
صدقۂ واجبہ: وہ صدقات ہیں جن کی ادائیگی شریعت کی طرف سے آدمی کے ذمہ لازم ہوتی ہے، جیسے زکوٰۃ، صدقۂ فطر وغیرہ، اس کے مصارف متعین ہیں، یعنی غرباء مساکین ہیں، جن میں تملیک شرط ہے۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ اور صدقہ دونوں لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔ زکوٰۃ ان مسلمانوں پر فرض ہے جو مالدار ہیں صاحب نصاب ہیں۔ جو مال آپ کی ضروریات اور اخراجات سے بچ گیا اس بچے ہوئے مال پر ڈھائی فیصد ہے۔
سعود قاسمی نے مزید بتایا کہ دور جدید میں مانگنے والوں کی تعداد بہت ہے جس میں پیشہ ور مانگنے والے اور غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ یہ معلوم ہی نہیں چل پاتا کہ کون ضرورت مند ہے اور کون نہیں۔ مستحق کے لیے شریعت نے ایک دلچسپ نظام رکھا ہے کہ پہلے آپ اپنے گھر سے شروع کرو، رشتہ داروں، محلوں اور شہر سے تاکہ آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ جس کو آپ زکوٰۃ دے رہے ہوں وہ مستحق ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا صدقۂ واجبہ یعنی زکوٰۃ مسلمانوں سے لی جائے اور مسلمانوں پر ہی خرچ کی جائے لیکن صدقۂ نافلہ میں یہ شرط نہیں ہے۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں کو اور جن کو بھی آپ ضرورت مند سمجھیں دینا چاہیے۔
قاسمی نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ زکوٰۃ ہمیں اجتماعی طور پر نکالنی چاہیے جس طرح ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ کسی ایک شخص کو سو یا دو سو روپیے دینے سے اس کا بھلا نہیں ہوگا لیکن اگر لوگ مل کر کسی ضرورت مند کو کاروبار شروع کروادیں، کسی طالب علم کا داخلہ کروادیا یا اس کی فیس جمع کردی کسی ضرورتمند کی ضروریات کو پورا کر دیا یا کسی کی نوکری لگوادی تو وہ خود اس قابل ہو جائے گا کہ وہ پھر بھیک نہیں مانگے گا۔ وہ صدقہ بھی نہیں لے گا بلکہ وہ خود صدقہ اور زکوٰۃ دے گا جیسے پہلے لوگ زکوٰۃ اور صدقہ ادا کرنے نکلتے تھے تو لوگ ملا نہیں کرتے تھے وہ نظام ٹوٹ گیا ہے۔