چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کے دوران تمام فریقین کے وکلاء سے پوچھا کہ انہیں اپنے دلائل مکمل کرنے کے لئے کتنا وقت چاہیے۔ آئینی بنچ میں جسٹس گوگوئی کے علاوہ جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر شامل ہیں۔
متنازع مقام پر سنی وقف بورڈ کا ہی حق دراصل سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے کہا کہ وہ جمعہ کو بحث سے چھٹی لیں گے لیکن جسٹس گوگوئی نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جمعہ کو کوئی دیگر فریق بحث کرلے تاکہ وقت کا استعمال ہوجائے۔ اس پر دھون نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ بحث کا ان کا تسلسل بگڑے۔ انہوں نے کہا”ہم بھی چاہتے ہیں کہ فیصلہ جلد آئے لیکن ہم بحث کے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دینا چاہیں گے۔“
اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین سے کہا کہ وہ یہ بتائیں کہ انہیں اپنی بحث مکمل کرنے کیلئے کتنا وقت چاہئے۔
اس سے قبل دھون نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا۔
”ہے رام کے وجود پر ہندوستاں کو ناز۔۔ اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند“
مسٹر دھون نے کہا کہ بھگوان رام کی بزرگی پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس بات پر بھی اختلاف نہیں ہے کہ بھگوان رام کا جنم اجودھیا میں کہیں ہوا تھا لیکن اس طرح کی بزرگی،کسی مقام کو ایک قانونی شخصیت میں تبدیل کرنے کا متبادل کب ہوگیا؟“
سماعت کے دوران مسٹر دھون نے علامہ اقبال کے مذکورہ شعر کا ذکر کرکے رام کو امام ہند بتاتے ہوئے ان پر ناز کرنے کی بات کہی۔ مسٹر دھون نے دلیل دی کہ ’جنم استھان‘ ایک شخص نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے دلیل دی کہ جنم اشٹمی بھگوان کرشن کے جنم دن کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن کرشن ’قانونی شخصیت‘ نہیں ہیں۔
شیعہ وقف بورڈ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے مسٹر دھون نے دلیل دی کہ بابری مسجد وقف جائیداد ہے اور سنی وقف بورڈ کا اس پر حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کے باہر کا رام چبوترہ 1885کے بعد ہی رام جنم استھان کے طورپر مشہور ہوا۔