ہائی کورٹ کے وکیل اور رہائی منچ سے وابستہ سماجی کارکن سنوتش سنگھ نے حکومت کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملک مخالف سرگرمیاں کسی بھی جگہ نہیں ہونی چاہیے ایسے میں نجی یونیورسٹیوں کو ہی کیوں منتخب کیا گیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت کی نیت درست نہیں ہے حکومت چاہتی ہے کہ سیکولر نظریات کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی جائے جیسے کمیونسٹ نظریہ یا گاندھی نظریہ، آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نظریات کی حامل کتابوں پر پابندی لگا دی جائے اور صرف آر ایس ایس کی تاریخ پڑھائی جائے۔
ہائی کورٹ کے وکیل سنتوش سنگھ نے کہا کہ کی انسداد دہشت گردی قانون میں ترمیم کیا گیا ہے وہ اس طریقے سے کہ پہلے کسی ممنوعہ شدت پسند تنظیم سے وابستہ افراد کو کو دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا لیکن اب کسی خاص شخص کو بھی اس کی سرگرمیوں کے پیش نظر دہشتگرد قرار دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کی انسدادِ دہشت گردی کے قانون کو مضبوط کرنا ایک اہم ضرورت بھی ہے لیکن اس کی زد میں کئی بے گناہ بھی آجاتے ہیں اور ان کو اپنی بے گناہی کو ثابت کرتے کرتے زندگی ختم کر ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کئی مسلم نوجوان شک کی وجہ سے اٹھا لیے جائیں گے اور ان پر دہشت گردی کو ثابت کر دیا جائے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک تنظیم سے کسی بھی شخص کو آسانی سے نہیں جوڑا جاسکتا تھا اور اس کو عدالت میں ثابت بھی نہیں کر پاتے تھے لیکن اب یہ کام آسان ہو جائے گا اور کئی بے گناہ اس کی زد میں آجائیں گے۔