آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے تعزیتی بیان میں کہا کہ اس عہد قحط الرجال میں پروفیسر یاسین مظہر صدیقی کی شخصیت علم و فن کے معاملے میں مثالی اور ہم سب کے لیے قابل تقلید نمونہ تھی۔
مولانا اعجاز قاسمی نے کہا کہ 'ڈاکٹر یاسین کی رحلت سے دنیائے علم و تحقیق میں جو خلا پیوا ہوا ہے اس کا پُر ہونا نا ممکن سا لگتا ہے۔ وہ اکیسویں صدی کے ممتاز محقق، ماہر علوم اسلامیہ، نامور سیرت نگار اور کامیاب و مقبول مصنف تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'وہ بہت ہی خلیق، متواضع، ملنسار، خوش مزاج اور خورد و کلاں کا احترام کرنے والے استاد بھی تھے۔ مرحوم کو سیرت نبویﷺ اور اسلامی تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت حاصل تھی اور انہوں نے سیرت نبوی اور تاریخ اسلامی کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ تاریخ کے اوراق میں جلی حروف میں درج کیے جائیں گے۔
مولانا قاسمی نے ان کے سوانحی احوال و کوائف اور ان کے تعلیمی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'مرحوم بچپن سے ہی بہت ہی ذہین و فطین اور متحرک و فعال شخص تھے، وہ دینی اور عصری علوم کا حسین سنگم تھے اور قدیم صالح اور جدید نافع کے نظریہ پر عمل کرتے تھے۔
انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت کے بعد مزید حصول علم کے لیے عصری دانش گاہوں کا رخ کیا اور اپنی خدا داد صلاحیت اور محنت و مشقت کی بنیاد پر اپنے ہم درس رفقاء میں ہمیشہ ممتاز اور نمایاں رہے اور جب تعلیمی مرحلے کی تکمیل کے بعد عملی میدان میں قدم رکھا تو ان کے تحقیقی شہ پاروں سے علمی دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔
مرحوم ایک ذی استعداد اور قلم و کتاب کے رسیا ذی علم اسکالر تھے جن کی اہم مصادر و مراجع اور امہات الکتب اور حوالہ جاتی قدیم کتابوں پر گہری نظر تھی۔
مولانا قاسمی نے مزید کہا کہ 'مرحوم نے تصنیف و تالیف کی دنیا میں اتنے اہم کام اس لیے انجام دیئے کہ وہ ایک محنتی اور جفا کش محقق تھے اہم اور بنیادی ماخد تک ان کی رسائی تھی۔ انہیں نہ صرف مشرقی زبان اردو، عربی اور فارسی میں اظہار خیال پر دسترس حاصل تھی بلکہ وہ رابطہ کی عالمی زبان انگریزی پر بھی دست گاہ رکھتے تھے۔
انہوں نے سیرت اور اسلامی تاریخ کے موضوعات پر متعدد کتابیں یادگار کے طور پر چھوڑی ہیں جو رہروان علم و تحقیق کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔