پیداوار بھی پہلے کے مقابلے کچھ زیادہ ہوئی ہے، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے تین مہینے تک لاک ڈاؤن اور پھر ان لاک اور ان لاک ٹو جاری ہے۔ ایسے میں آم جب باہر نہیں جا رہے ہیں تو آم کی باغبانی کرنے والے باغباں کافی پریشان ہیں۔
رامپور میں بڑے پیمانے پر آم کی باغبانی کی جاتی ہے۔ یہاں کے آم کا ذائقہ دیگر مقامات کے آموں سے کچھ مختلف ہوتا ہے۔ یہاں کئی اقسام کے آموں کی پیداوار ہوتی ہے۔
جس میں لنگڑا، فجری، چوسا اور دسیری کافی اہم ہیں۔ اردو کے ممتاز شاعر اسد اللہ خاں غالب جو کہ آموں کے کافی دل داہ تھے۔
انہوں نے بھی نوابین رامپور کے زمانے آموں کے ذائقہ کا لطف اسی رامپور میں آکر لیا تھا۔ یہاں کا آم باہر ملکوں میں بھی کافی بڑے پیمانے پر جاتا ہے۔
رامپور کی کوٹھی خاص باغ کا آم خصوصی طور پر ہر سال اٹلی جاتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ کورونا وائرس کا اثر رامپور کے پر بھی پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے لمبے لاک ڈاؤن میں آمد و رفت بند ہو جانے کے سبب رامپور کا آم باہر نہیں جا سکا۔ جس کی وجہ سے آموں کی باغبانی کرنے والے باغبانوں کا کافی نقصان ہو رہا ہے۔
اس مرتبہ کی فصل بھی کافی اچھی ہوئی ہے۔ آم کے درختوں پر آم پکا ہوا تیار ہے۔ لیکن خریدار نہیں ہونے کی وجہ سے درختوں پر لگا آم بڑے پیمانے پر خراب ہو رہا ہے۔
جس سے آم کے باغبانوں میں کافی مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ آم کی باغبانی کرنے والے ذاکر کہتے ہیں کہ، 'ان کو اس بات کی کافی فکر ہو رہی ہے کہ ان کی لاگت بھی نکل سکے گی یا نہیں۔'
وہیں آم کے ایک دیگر باغباں کا کہنا ہے کہ، 'آم کی پیداوار تو پہلے کے مقابلے کافی اچھی ہوئی ہے، لیکن لاک ڈاؤن سے ٹوٹے ہوئے باہری تاجر آم کے باغوں کا رخ نہیں کر رہے ہیں۔ آم باغ میں سے نہیں جانے کی وجہ سے یہیں درختوں پر خراب ہو رہا ہے۔'