علیگڑھ:عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جس کا پارلیمانی ایکٹ 1920 کا ہے۔ اس تاریخی یونیورسٹی اور اس کے ایکٹ کو بچانے کے لئے یونیورسٹی اساتذہ، طلباء اور الومنائی کی جانب سے "اے ایم یو بچاؤ تحریک" تحریک شروع کی گئی ہے جس کا دھرنا 15 اکتوبر کو جنتر منتر، نئی دہلی میں ہوگا۔ اے ایم یو بچاؤ تحریک کا دھرنا کہیں اس بات کی دلیل تو نہیں ہے کہ اے ایم یو ایکٹ کو ختم کر دیا گیا ہے ؟ اگر نہیں تو گزشتہ 18 ماہ سے اے ایم یو ایکٹ کے مطابق یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کیوں نہیں جبکہ اے ایم یو ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جس کو اپنی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر چنے کا حق حاصل ہے۔
یونیورسٹی ایکٹ کو طاخ پر رکھ کر سلیکشن کمیٹی کیوں کروائی جا رہی ہیں جس کو اساتذہ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے الہآباد ہائی کورٹ میں عرصی داخل کردی ہے۔طلباء مستقل احتجاج کے سات طلباء یونین کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں باوجود اس کے انتظامیہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کررہا ہے جس کے خلاف ایک بار پھر طلباء یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ باب سید کو بند کرکے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اے ایم یو ٹیچرس ایسوسی ایشن (AMUTA) کے سیکرٹری ڈاکٹر عبید احمد صدیقی نے ای ٹی وی بھارت کو خصوصی گفتگو میں بتایا اے ایم یو اور اس کے ایکٹ کو بچانے کے لئے 'اے ایم یو بچاؤ تحریک' شروع کی گئی ہے جس کا دھرنا 15 اکتوبر کو 11 بجے سے جنتر منتر، نئی دہلی میں ہوگا کیونکہ گزشتہ کچھ ماہ سے اے ایم یو کے حالات مسلسل ناسازگار ہوتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ 18 مہینوں سے اس کا کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں ہے۔ سابق وائس چانسلر طارق منصور نے حسب روایت اپنی پانچ سالہ مدت کے آخری چھہ ماہ میں یونیورسٹی کے اگلے وائس چانسلر کی تقرری کا طریقہ کار شروع نہیں کرکے مرکزی حکومت سے ایک سال کی توسیع وائس چانسلر کی تقرری کے لئے حاصل کی اور وقت سے پہلے بنا تقرری کئے استعفی دے کر 2 اپریل کو چلے گئے۔
طارق منصور کے استعفی کے بعد پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے وائس چانسلر کی خدمات انجام دینا شروع کی جن کی اولین ترجیح یونیورسٹی کے لئے مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا طریقہ کار شروع کرنا ہے لیکن وہ اس کے علاوہ سارے کام کو بہ حیثیت وائس چانسلر کے انجام دے رہے ہیں جس میں سرح فہرست اساتذہ کی سلیکشن کمیٹی اور اپنے نام کے ساتھ وائس چانسلر لکھوا کر کیمپس کے مختلف مقامات پر پتھر نصب کروانا شامل ہیں جبکہ کارگزار وائس چانسلر کو ایسا کرنے کا اختیار ہے ہی نہیں اسی لئے اساتذہ نے سلیکشن کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے الہآباد ہائی کورٹ میں عرصی داخل کی ہے جس کی سنوائی جلد ہی ہوگی۔