عقیل رضوی کا تعلق اس نسل سے ہے جس نے سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور مخدوم محی الدین کے دور کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اردو میں ترقی پسند تحریک شروع کرنے والے افراد میں اب صرف گنے چنے افراد ہی باقی رہ گئے ہیں۔
اردو ادب میں مارکسوادی اور ترقی پسند تنقید کی بنیاد ڈالنے والے عقیل رضوی ان ادیبوں میں شامل رہے ہیں، جنہوں نے صرف اپنے کام پر بھروسہ کیا۔ عقیل رضوی کی یہ بے نیازی ان کی منفرد پہچان رہی ہے۔
پروفیسر عقیل رضوی گذشتہ ستر برسوں سے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ شعبہ اردو الہ آباد یونیورسٹی میں انہوں نے چالیس برسوں تک اپنی تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے مختلف موضوعات پر ایک درجن سے بھی زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ان کتابوں میں پیش کی جانی والی تنقید پر ترقی پسند رجحانات کے اثرات صاف طور سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
عقیل رضوی کا کہنا تھا کہ علم نہ تو کسی کی ذاتی جاگیر ہے اور نہ ہی اس کو کسی خاص طبقے میں قید کیا جا سکتا ہے۔ اتنی طویل اور گراں قدر خدمات کے با وجود سید محمد عقیل رضوی کو ابھی تک کوئی بڑا اعزاز نہیں ملا۔
گزشتہ برس مارچ میں غالب انسٹی ٹیوٹ نے عقیل رضوی کو خصوصی اعزاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ کئی اور ادبی اداروں نے وقتاً فوقتاً عقیل رضوی کو مختلف اعزاز سے نوازا ہے۔
عقیل رضوی کی تصنیفات کو اردو کے ترقی پسند ادب میں ہمیشہ ایک اہم مقام حاصل رہے گا۔