آج بابری انہدام معاملے پر لکھنؤ کے خصوصی عدالت کے ذریعہ دیئے گئے فیصلے پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں یہ کہہ کر انصاف کا مذاق بنایا گیا کہ مسجد کے انہدام کے لیے کوئی سازش نہیں رچی گئی تھی، بڑے لیڈروں نے صرف ہجوم کو روکنے کی کوشش کی اور گنبد پر چڑھ کر مسجد کو گرانے والے شرپسند لوگ تھے اور ان میں سے کسی کی بھی شناخت نہیں ہو پائی ہے۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا ردعمل انہوں نے کہا کہ اجتماعی جرم کی اس کریہہ حرکت کے 28 سالوں بعد سی بی آئی کورٹ کے جج ایس کے یادو کے ذریعہ دیا گیا فیصلہ ایک ایسا گونگا بہرا فیصلہ ہے۔عدالت نے یہ کہتے ہوئے ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی وغیرہ جیسے تمام 32 ملزم مجرموں کو بری کر دیا، کیونکہ ان کے خلاف کسی بھی طرح کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔فیصلے میں لبراہن کمیشن کی رپورٹ کی تحقیقات کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا گیا جس میں سنگھ پریوار کے 68 لیڈران کو اہم ملزم بتایا گیا تھا۔او ایم اے سلام نے مزید کہا کہ سی بی آئی کورٹ نے ایک سیاسی فیصلہ تیار کیا ہے، جو کہ حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں کیا گیا ہے، جیسا کہ ایک مجرمانہ مقدمے میں ہونا چاہیے تھا۔ 9 نومبر 2019 کو آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ متعصبانہ فیصلہ پوری طرح سے غیر متوقع نہیں تھا، جس میں عدالت نے شہید بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی تھی۔ ملک کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے آزاد اداروں پر بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کا مکمل غلبہ اور قبضہ ہے۔ گذشتہ 6 سالوں کے متعدد واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی ایجنسیوں کی آزادی پر کیسے حملہ کیا جارہا ہے۔بلاشبہ مسلمانوں اور بھارت کے تمام انصاف پسند عوام کے جذبات سپریم کورٹ کے فیصلے کے دن ہی خالی ہو گئے تھے۔ اب اس دن کو بھی بھارت کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی جانب سے چیئرمین او ایم اے سلام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے لگے ان دھکوں سے نڈھال نہ ہوں اور تمام میسر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے انصاف اور امن کی بحالی کی لڑائی میں ثابت قدمی سے ڈٹے رہیں۔