لکھنؤ:ملک کی سیاست میں اتر پردیش کی سیاست ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یوپی کی سیاست کی بات کریں تو یہاں اقلیتی برادری کا ووٹ بھی کافی کارگر سمجھا جاتا ہے۔ ریاست کی موجودہ حکومت اور اپوزیشن 2024 کے لوک سبھا انتخابات اور آئندہ ہونے والے یوپی میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں آمنے سامنے ہیں۔ بی جے پی یوپی میں مسلم ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف اپوزیشن بی جے پی پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ ہمیشہ اصل مسائل سے ہٹ کر ہندو، مسلم، مندر، مسجد جیسی چیزوں پر ووٹ مانگتی ہے۔
ملک اور ریاست میں مسلمانوں کے حوالے سے سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یوپی ایک ایسی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی ملک کی دیگر ریاستوں سے زیادہ ہے۔ اسی لیے سیاسی پارٹیاں بھی یوپی کے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے تمام سیاسی حربے اپناتی ہیں۔ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کا الزام ہے کہ ان سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے وعدے کرکے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کیے، لیکن انہیں سماج کے قومی دھارے سے جوڑنے کے بجائے صرف سیاست کی۔ اب بی جے پی اقلیتی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔ جس کے تحت پسماندہ مسلمانوں کو سماج کے قومی دھارے سے جوڑنے کے وعدے کے ساتھ یوپی میں میدان میں ہیں، جس کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیاں پریشان نظر آرہی ہیں۔
بی جے پی کے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے نعروں کے بعد اترپردیش حکومت بھی اقلیتوں کو بہتر تعلیم، طبی سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ جس کی کمان یوگی حکومت نے پسماندہ سماج سے آنے والے نوجوان وزیر دانش آزاد انصاری کو سونپی ہے۔ دانش انصاری کی مسلم کمیونٹی کے ہر طبقے میں اور خاص طور پر پسماندہ مسلمانوں میں زبردست گرفت و وقار کی وجہ سے اقلیتی طبقہ امید بھری نظروں سے بی جے پی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ UP Politics On Pasmanda Muslims