اترپردیش اسمبلی انتخابات کی بگل بجتے ہی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا ہے. وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ روز کہا کہ اب اترپردیش اسمبلی انتخابات میں لڑائی 20 فیصد بنام 80 فیصد ہوگیا ہے جو لوگ اچھی حکومت اور ترقی کی حمایت کرتے ہیں وہ 80 فیصد بی جے پی کے ساتھ ہیں اور جو لوگ غنڈہ گردی، ترقی کی مخالفت اور مافیاؤں کی حمایت کرتے ہیں وہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب یوپی میں ضابطۂ اخلاق کا نفاذ ہوچکا ہے۔ اس بیان پر سیاسی و سماجی حلقوں سے مختلف ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ بعض سیاسی رہنما و دانشور اسے ملک سے غداری کے زمرہ میں رکھتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سینیئر و آزاد صحافی عبیداللہ ناصر کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے اس بیان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وہ جب بھی بیان دیتے ہیں تو اس طریقے کے اشتعال انگیز بیانYogi’s ‘80%- 20%’ remark bid to inflame communal tension دیتے ہیں۔ اس بیان کو سماج کا ہر طبقہ سمجھ چکا ہے کہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بیس فیصد جہاں اقلیت ہیں 80 فیصد اکثریتی طبقہ ہے اب ان کے درمیان انتخابات ہونے والا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل درست نہیں ہے اس طرح کے بیانات پر الیکشن کمیشن کو نوٹس لے کر کارروائی کرنی چاہیے۔
آزاد صحافی عبیداللہ ناصر سے جب یہ پوچھا گیا کہ مسلمانوں کے اعداد و شمار کو لے کر اسد الدین اویسی ریلیوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مسلمان 19 فیصد ہونے کے باوجود بھی اقتدار میں کیوں نہیں ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اویسی کی سیاست کو اتر پردیش کا مسلمان طبقہ پسند نہیں کرتا ہے۔ انکی اور بی جے پی کی سیاست میں کہیں نہ کہیں یکسانیت نظر آتی ہے۔ جس طریقے سے وہ فرقہ وارانہ اور جذباتی بیان دیتے ہیں اسی طریقے سے بی جے پی بھی فرقہ وارانہ بیانات دیتے چلی آئی ہے۔
کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما و سابق کابینی وزیر نسیم الدین صدیقی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ بی جے پی کے پاس ہندو مسلم مندر مسجد، ذات مذہب کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ اس لئے وزیر اعلیٰ اس طریقہ کے بیانات دے رہے ہیں۔