آئی جی ایس کے بھگت نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتایا تھا کہ صرف 40 سیکنڈ کے لیے طلبا کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پورے معاملے کو قابو کر لیا گیا۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج پر پولیس کی گرفتاریاں، دیکھیں ویڈیو آئی جی بھگت نے بتایا کہ مدرسہ انتظامیہ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ جو بھی طلباء پتھراؤ میں شامل تھے انکی شناخت کر کے پولیس کے حوالے کیا جائیگا۔
اسی سلسلے میں آج ندوۃ العلماء کے تین طلبا کو پولیس نے حراست میں لیا تھا لیکن پولیس نے اس بات کی کوئی تصدیق نہیں کی جبکہ مدرسہ انتظامیہ نے اس پر کچھ بھی بولنے سے منع کر دیا۔
معلوم ہو کہ ندوۃ العلماء کے اعتراف میں مقامی لوگوں نے گزشتہ روز دوپہر کے وقت پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کر دیا تھا لیکن کوئی زخمی نہیں ہوا۔
پولیس نے سی سی ٹی وی کی مدد سے ایسے لوگوں کی پہچان کر دو لڑکے مونو اور فیضی کو حراست میں لیا ہے۔ یہ دونوں کیمرے میں صاف پتھراؤ کرتے دکھ رہے تھے۔
اگر آج ندوۃ العلماء کی بات کریں تو رات سے ہی پولیس پوری طرح مستعد رہی اور شام تک وہیں احتیاطاً ڈیرہ جمائے رہی۔
ندوۃ العلماء پانچ جنوری تک بند کر دیا گیا ہے زیادہ تر طلباء کل ہی جا چکے تھے باقی کے آج روانہ ہو گئے۔ یہاں پر ملیشیا اور تھائی لینڈ کے بھی طلباء زیرِ تعلیم ہیں انہیں بھی بھیج دیا گیا۔
ندوۃ العلماء کو قائم ہوئے تقریباً 120 برس ہو گئے لیکن کبھی بھی اس طرح سے طلباء کو گھر نہیں بھیجا گیا۔
10 سے 12 روز پہلے ہی امتحان کی چھٹیوں کے بعد مدرسہ آئے تھے لیکن اب دوبارہ سے 20 دنوں کے لیے سبھی طلباء کو گھر جانا پڑ رہا ہے۔
لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کے بعد انٹریگل یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی، ارا میڈیکل کالج اور شیعہ پی جی کالج میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف طلباء نے احتجاج کیا۔
اُتر پردیش میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ہے۔ پہلے ہی اُتر پردیش میں سہارن پور، دیوبند، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مئواور دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج ہوا۔