اردو شاعری میں شراب نوشی، مے خانہ، بادہ نوشی، قدح، جام جیسے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہین۔ بعض ایسے شعراء گزرے ہیں جو شراب و مے خانہ سے کوسوں دور رہے، لیکن اپنے شاعری میں شراب نوشی، میکدہ کا خوب ذکر کیا، وہیں دنیائے سخن کے آفتاب اردو زبان و ادب کے عظیم قلم کار مرزا اسد اللہ خان غالب نے نہ صرف شراب نوشی کے حوالے سے دلچسپ اشعار لکھے بلکہ ان کی شراب نوشی کے طور طریقے اور قصہ بھی خوب دلچسپ رہے اور عوام کے مابین آج بھی موضوع گفتگو رہتے ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب کی شراب نوشی کے حوالے سے بیشتر قصے گڑھے ہوئے ہیں، بہرحال مرزا کی شراب نوشی نے جو شہرت حاصل کی آج تک اس کا کوئی بدل سامنے نہیں آیا، شائد یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک میں انگریزی شراب کا نام مرزا غالب رکھا ہے۔
لکھنو میں اردو کے معروف شاعر منور رانا نے ای آئی ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہاکہ مرزا غالب کے نام سے انگریزی شراب کا بازار میں آنا یہ بھارت کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پہلی بار کسی بھارتی شخصیت کے نام سے انگریزی شراب کا نام رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مرزا غالب اپنی قبر میں خوش ہو رہے ہوں گے کہ ان کے نام کی شراب بازار میں آئی ہے، مرزا غالب شراب نوشی کے اس قدر دلدادہ تھے کہ فقیری و تنگدستی کے عالم میں بھی شراب نوشی کو ترک نہیں کرتے تھے'۔ مرزا غالب نوشہ میاں کی شراب نوشی کے حوالے سے انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ نادر خیامی نے ایک مشاعرہ منعقد کیا تھا جس میں مرزا غالب بھی شامل تھے، جیسے ہی مرزا غالب اندر داخل ہوئے ایک ادھا ان کے کپڑے سے نیچے گرا، لوگوں نے پوچھا کی یہاں شراب کیسے آیا یا جس پر نادر خیال کے شعر کے جواب میں کہا تھا" شاگرد تھے وہ غالبِ خانہ خراب کےدو آدھے رہ گئے تھے کفن میں شراب کےایک ادھا مارلی منکر نکیر نے باقی جو بچ گیا تھا چڑھالی فقیر نے انہوں نے کہاکہ اسپن کی کمپنی نے دنیا کی 64 زبان میں چھپنے والے شاعر کے نام سے شراب کا نام رکھا ہے جس یہ ظاہر ہے کہ کم از کم مرزا غالب نے اپنا لوہا منوا ہی لیا ساتھ ہی وہ اردو زبان و ادب کے نامور قلم کار تھے اس حیثیت سے پوری دنیا میں جو بھی مرزا غالب کو خوش کرے گا اردو کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور معلومات حاصل کرے گا۔'منوررانا نے بتایا کہا کہ کمپنی کو مرزا کو استعمال نہیں کرنا چاہیے اس پر اعتراض ہوسکتا ہے غالب نام پر کوئی اعتراض نہیں ہے اس نام سے کلکتہ میں بھی ایک بار ہے۔لکھنو کے معروف شاعر حسن کاظمی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ اردو شاعری میں شراب، شباب کا اہم مقام تھا جس پر متعدد شعراء نے شاعری کی ہے۔ مرزا غالب کی شراب نوشی اس قدر معروف ہوئی کہ ان کی شراب نوشی کے حوالے سے بہت ہی دلچسپ واقعات بھی عوام کے مابین مشہور ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار شیفتہ اپنے ہمراہ کے ساتھ مرزا کے گھر پہنچے مرزا غالب نے مہمان نوازی میں اپنے ملازم حامد میاں کو طلب کیا اور ایک رقہ دیا۔ جس میں ایک درجن شراب کی بوتل لانے کا حکم تھا۔ شیفتہ کے ہمراہیوں نے تعجب کا اظہار کیا۔ جس پر مرزا نے جواب دیا کہ اگر ادھار ہی لینا ہے تو ایک ساتھ ہی آجائے'۔انہوں نے بتایا کہ مرزا غالب کے نام سے شراب کا بازار میں آنا انا اردو شعراء کے لیے کوئی اعتراض کا سبب نہیں ہو سکتا ہے، لیکن موجودہ دور میں اردو شعرا میں شراب نوشی کی کمی ہوئی ہے اور اسٹیج پر شرابی شعراء میں کمی ہوئی ہے۔'