لاک ڈاؤن کا واضح اثر اب دیکھنے کومل رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کے لوگ ذہنی اور نفسیاتی طور پر کمزور پڑنے لگے ہیں ۔کوروناوائرس کو ختم کرنے کے ملک میں جاری لاک ڈاؤن کا لوگوں کے دل ودماغ پر گہرا اثر ڈالنے لگا ہے ۔
اٹاوہ میں ہاتھوں سے بنائے گئےکپڑوں کی ایک زمانے میں چین،جاپان اور کناڈا سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں زبردست طلب تھی۔ یہاں کا بنکر کاروبار ملک کے بیرونی زرمباردلہ میں قابل ذکر حصہ داری ادا کرتھا لیکن حکومت کی پالیسیوں اور بدلتے زمانے کے ساتھ اب وہ گذرے جانے کی بات ہوگئی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ اٹاوہ کے بنکر دہائیوں سے بدحالی کے سائے میں زندگی بسر کرنے کو مجبور ہیں اور اب لاک ڈاؤن نے انہیں دانے دانے کا محتاج بنادیا ہے۔
بنکر محمد ذیشان کہتے ہیں کہ کسانوں کے گیہوں کی طرح ان بنکروں کا مال بھی سرکار خریدے تاکہ ان کے کنبے اس مشکل وقت کا سامنا کرسکیں۔ ایک دوسرے بن کر مزدور نسیم نے کہا کہ'لاک ڈاؤں کے بعد اب صرف جی رہے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے لومز پوری طرح سے ٹھنڈے ہوچکے ہیں کیونکہ ہم کو سوت نہیں مل پارہا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کھانے کو تو ہے لیکن چولہا جلانے کو لکڑی نہیں ہے۔
بنکر کارخانہ کے مالک امین کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار پوری طرح سے ٹھپ ہے کیونکہ ابھی کوئی بھی کچا مال نہیں آپارہا ہے اور جب کچا مال نہیں آئے گا توپکا کریں گے کیا۔ مزدوروں کا بھی پیسہ دینے کے لئے نہیں ہے ہمیں کافی دقتوں کا سامنا ہے۔ یہی کام کے شباب کا وقت تھا آگے آنے والا وقت بارش کا ہے جس میں بنکر کام بند کردیتے ہیں۔ پہلے سے جو مال بن کر رکھا ہوا بھی ہے اسے بھی کہیں باہر بھیجنے کا کوئی انتظام نہیں ہو پارہا ہے۔
سوت تنگائی کا کام کرنے والے محمد صدام کے مطابق جب سےیہ لاک ڈاؤن ہو اہے تب سے سوت رنگائی کا کام بالکل بند ہوگیا ہے۔ کاریگرکے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں آپارہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بنکری بالکل ہی بند ہوگئی ہے۔ صرف پریشانی ہی پریشانی ہے۔