علی گڑھ: جماعت اسلامی کے بانی اور ممتاز عالم دین مولانا سید ابوالاعلی مودودی Maulana Sayyid Abul Ala Maududi کی کتابیں اور مضامین کو نصاب سے ہٹانے کے مطالبے پر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر عبید اللہ فہد کا کہنا ہے کہ "مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتابوں پر اعتراض کی وجہ یہ کہ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلم اسکالر ہیں اور ان کا اثر پوری مسلم دنیا، یورپ اور امریکہ پر ہے، کیونکہ وہ مغربی نوآبادیات کے خلاف سب سے بڑی آواز بن کر ابھرے، اس لیے ان کے خلاف سب سے زیادہ مواد مغربی ادب میں پایا جاتا ہے"۔ Professor Fahad Abdullah Reacts over Maulana Maududi Books Row
پروفیسر عبید اللہ فہد نے مزید بتایا کہ "وہ گذشتہ پچاس برسوں سے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو پڑھ رہے ہیں، پڑھا رہے ہیں، ان پر پی ایچ ڈی کروائی۔ انہوں نے کئی کتابیں اردو اور انگریزی میں لکھی ہیں۔ ان کی تحریروں میں ایک بھی لائن ایسی نہیں ملی جس میں دہشتگردی، تشدد کی حمایت ہو، شروع سے لے کر آخر تک یہی کہتے رہے ہمیں اسلام کے لیے کام کرنا ہے۔ وہی طریقہ اپنانا ہے جو رسول ﷺ نے اپنایا اور وہ پر امن راستہ ہے، جمہوری، آئینی طریقہ"۔
پروفیسر فہد کا کہنا ہے "مولانا مودودی کا ایک بھی جملہ نقل نہیں کیا جا سکتا جسے قانون، جمہوریت یا کسی بھی دستور کے خلاف قرار دیا جا سکے"۔ اے ایم یو کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصاب میں پڑھائی جانے والی مولانا مودودی کی کتابوں کو نصاب سے ہٹائے جانے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر فہد نے کہا کہ "یہ مسئلہ بورڈ آف اسٹڈیز کا ہے۔ بورڈ آف اسٹڈیز اس مسئلے پر بات کرے گا، جس میں ماہرین اس پر اپنی رائے دیں گے، اس کے بعد اس پر کوئی فیصلہ ہوگا"۔