اردو

urdu

ETV Bharat / state

Objection to the Decision of the Madrasa Board: مدرسہ بورڈ کی جانب سے مضامین ضم کرنے کے فیصلے پر اعتراض

ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اترپردیش کے جنرل سکریٹری نے اترپردیش مدرسہ بورڈ میں بدانتظامی کی بات کرتے ہوئے مدارس کی تعلیم کو چیلنج کرنے والے فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے کہ مدرسہ بورڈ اپنے فیصلے کو واپس لے اور مدارس کے قیام کا مقصد اور نظام تعلیم کو مستحکم کرنے کی جانب اقدامات کئے جائیں۔ Objection to the Decision of the Madrasa Board

مدرسہ بورڈ کی جانب سے مضامین ضم کرنے کے فیصلے پراعتراض
مدرسہ بورڈ کی جانب سے مضامین ضم کرنے کے فیصلے پراعتراض

By

Published : Apr 6, 2022, 4:13 PM IST

ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اترپردیش کے جنرل سکریٹری مولانا دیوان صاحب زماں نے لکھنؤ پہنچ کر مدرسہ بورڈ کے رجسٹرار اقلیتی بہبود کے وزیر مملکت دانش آزاد اور قانون ساز اسمبلی کے رکن دھرو کمار ترپاٹھی سمیت متعدد اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کی۔ Objection to the Decision of the Madrasa Board۔ ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں مدرسہ بورڈ کی جانب سے لیے گئے فیصلے اتر پردیش کے مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو چیلنج کر رہے ہیں اور مدرسے کے تعلیمی نظام کو بھی ختم کرنے کے مترادف ہیں۔

مدرسہ بورڈ کی جانب سے مضامین ضم کرنے کے فیصلے پراعتراض

انہوں نے کہا کہ اردو، عربی اور فارسی کے ساتھ دیگر مضامین کو ضم کردیا گیا ہے جو ناقابل قبول ہے۔ آنے والے وقت میں طلبا و اساتذہ کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس میں مدارس میں اردو، عربی اور فارسی خصوصی تعلیم ختم ہوجائے گی جو افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوپی مدرسہ بورڈ کے قیام کا بنیادی مقصد اورینٹل زبان کو فروغ دینا ہے جس میں عربی فارسی شامل ہے۔ مدرسہ بورڈ کا 1916 میں قیام ہوا تھا۔ ایجوکیشن کوڈ کے تحت بورڈ کو تمام مراعات حاصل ہوئی۔ وقت وقت پر اس سے متعلق قوانین وضع ہوتے رہے۔

مدرسہ بورڈ کے قوانین میں اس بات کا ذکر ہے کہ اردو، عربی اور فارسی کے فروغ کے لیے مدارس کے قیام کا خاص مقصد ہے لیکن موجودہ مدرسہ بورڈ کی کمیٹی نے جو فیصلہ لیا ہے کہ سماجی علوم ریاضی کے ساتھ عربی یا فارسی کو ضم کردیا جائے گا، غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال طلبہ کے لیے انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ مضامین کی تعداد کافی بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں جو بھی تعلیمی بورڈ ہے اس میں طلبہ کو آٹھ سے دس مضامین سے زائد نہیں پڑھائے جاتے جب کہ مدرسہ بورڈ میں طلبہ پر اس سے زائد مضامین شامل کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مدرسہ بورڈ کے قوانین میں بار بار ذکر ہے کہ حفظ کی تعلیم دی جائے گی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کس تعلیمی ادارہ کے حفظ کی سند کو تسلیم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے رجسٹرار اور مدرسہ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا کوئی منفی نظریہ نہیں ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مدرسے میں حفظ کے عہدے پر کتنے ملازمین تعینات ہیں اور ان کی تعلیمی ڈگری کیا ہیں۔ انہوں نے مدرسہ بورڈ کی جانب سے لیے گئے ایم ٹی ای ٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اقلیتی اداروں میں ایم ٹی ای ٹی امتحان کرانا ممکن ہے تو اس کے قانون و ضوابط کے ساتھ یہ امتحان کرائیں اور انتظامیہ کے اختیارات کو بغیر کم کئے ہوئے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کے خلاف ہوتا ہے تو ہم قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھائیں گے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details