مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی تشکیل دیا، جس کے بعد مختلف دانشور اس پر گفتگو کر رہے ہیں اور اچھے برے نتائج پر غور و فکر کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اردو داں طبقے میں خدشات ہیں کہ کیا اردو کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے گا یا اردو زبان کی فروغ و اشاعت میں سوتیلا سلوک ہوگا۔ ان خدشات کو اس وجہ سے بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ نئی تعلیمی پالیسی میں اردو کا ذکر شاز و نادر ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے بتایا کہ نئی ایجوکیشن پالیسی پر دانشور طبقہ غور و فکر کر رہا ہے۔ ویبنار ہو رہے ہیں اور اس کے صحیح اور غلط نتائج کے بارے میں بھی غور و فکر کیا جارہا ہے۔ ایسے میں اُردو داں طبقہ کے ذہن میں سوال ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں اردو کا ذکر شاز و نادر ہے۔ ایسے میں کیا اردو کے ساتھ ناروا سلوک کیا جائے گا۔ اردو زبان کو خاطر خواہ جگہ نہیں مل پائی ہے؟
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں تین زبانوں کا ترجیحی طور پر ذکر کیا گیا ہے جس میں فارسی سنسکرت اور پالی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ بھارت کی تہذیب و ثقافت کا بڑا حصہ ان زبانوں میں محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زبان کا ترجیحی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔