اردو

urdu

ETV Bharat / state

Nawab Jafar Mir Abdullah Demise نواب میر جعفر عبداللہ تال کٹورہ قبرستان میں سُپردِ خاک - اترپردیش خبر

اودھ کی تاریخ اور اس کی تہذیب و ثقافت کے جانکار روشن تقی نے نواب میر جعفر عبداللہ کے انتقال پر کہا کہ نواب میر جعفر عبداللہ کے پاس لکھنوی تہذیب و ثقافت کا وہ قیمتی سرمایا تھا جو موجودہ دور میں کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے زبان ادب اور تہذیب کے حوالے سے جو کام کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔

سُپردِ خاک
سُپردِ خاک

By

Published : Apr 20, 2023, 7:32 AM IST

تاریخ داں

لکھنو: لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرنے والی معروف شخصیت نواب میر جعفر عبداللہ کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا۔ آج تالکٹورہ قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ جنازے کی نماز تاریخی عمارت ستکھنڈا کے سامنے واقع پارک میں ادا کی گئی۔ اس کے بعد ان کی میت کو بذریعہ موٹر تال کٹورہ قبرستان لے جایا گیا جہاں تدفین عمال میں آئی۔ ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے اودھ کے معروف تاریخ دان روشن تقی نے بتایا کہ اودھ کی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرنے والے نواب میر جعفر عبداللہ کی شخصیت بین الاقوامی شہرت یافتہ تھی، بالی ووڈ کی دنیا میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، انہوں نے کئی فلموں میں کام کیا، ان کے پاس نوابوں کے دور کے نادر و نایاب چیزیں موجود ہیں جنہیں کئی فلموں میں استعمال بھی کیا گیا۔ روشن کہتے ہیں کہ وہ صرف نام کے نواب نہیں تھے بلکہ ان کی شخصیت میں نوابیت جھلکتی تھی۔ اب ان کے اولاد یا ان کے بھائیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ ان چیزوں کو آگے بڑھائیں، ان کے جانے سے لکھنوی تہذیب و تمدن کا بڑا نقصان ہوا ہے۔
فخر الدین علی احمد کمیٹی کے چیئرمین اطہر صغیر طورج زیدی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نواب صاحب کے انتقال سے نہ صرف لکھنوی تہذیب اور ثقافت کا بڑا نقصان ہوا ہے بلکہ قوم کے لیے وہ عظیم سرمایہ تھے۔ ان کا انتقال قوم کے لئے کسی بڑے خسارہ سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ لکھنوی تہذیب سے متعلق ان کے پاس کئی ایسی اشیاء موجود ہیں جو نادر ونایاب ہے اور انہوں نے سنبھال کر رکھا ہے۔ نواب صاحب کا انتقال ہم سبھی کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔

مزید پڑھیں:Nawab Jafar Mir Great Personality نواب جعفر میر عبداللہ کے انتقال سے لکھنؤ تہذیب و ثقافت کا بڑا خسارہ
شمشی آزاد نے بتایا کہ نواب صاحب زبان کے حوالے سے بہت ہی حساس تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ کس طریقے سے آداب کیا جاتا ہے، کہاں تک ہاتھ اٹھایا جاتا ہے، اور کیا انداز ہوتا ہے، یہ تمام چیزیں نواب صاحب میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ کئی مقام پر لوگوں کو یہ بتاتے بھی تھے۔ لکھنوی دسترخوان، لکھنو کی تاریخی عمارتیں، یہاں کے لباس طور طریقے سے انہیں خاصی آگہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی کوئی لکھنؤ کے بارے میں جاننے کا خواہش مند ہوتا تو وہ نواب صاحب سے ضرور ملاقات کرتا۔ واضح رہے کہ نواب میر جعفر عبداللہ طویل عرصے سے بیمار تھے۔ کچھ دن قبل ان کے اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حال ہی میں لکھنو کے ویویکا نند ہاسپٹل میں نواب میر جعفر عبد اللہ کا ڈائیلائسس ہوا تھا، اس کے بعد وہ نید کی حالت میں دنیا سے رحلت کر گئے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details