نیشنل اتحاد منچ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم آج ممبئی سے رامپور پہنچی۔ اسماعیل باٹلیوالا کی قیادت میں یہ ٹیم سب سے پہلے محمد علی جوہر یونیورسٹی گئی اور وائس چانسلر پروفیسر سلطان محمد خان سے ملاقات کی۔
اس کے بعد وہ رکن پارلیمان اعظم خاں کی رہائش گاہ پہنچے جہاں انہوں نے اعظم خاں کی اہلیہ اور پرو وائس چانسلر و ممبر اسمبلی ڈاکٹر تزئین فاطمہ سے ملاقات کی۔
تقریباً ایک گھنٹہ تک چلی اس ملاقات میں جوہر یونیورسٹی کے معاملوں میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نیشنل اتحاد منچ کے سربراہ اسماعیل باٹلیوالا نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا آج دوسرے مرحلہ کا دورہ ہے۔ اس سے پہلے وہ ایک مرتبہ گذشتہ 12 مارچ سے 19 مارچ تک یونیورسٹی معاملے میں اپنے طور پر اپنی ٹیم کے ساتھ فیکٹ فائنڈنگ کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران اعظم خاں اور ان کے اہل خانہ سے سیتاپور جیل میں ہونے کی وجہ ملاقات نہیں ہو سکی تھی لیکن آج ہم اعظم خاں کی رہائش گاہ پر ان کی اہلیہ ممبر اسمبلی ڈاکٹر تزئین فاطمہ سے ملاقات کرکے یونیورسٹی معاملے پر جانکاریاں حاصل کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب تیسرے مرحلہ کی فیکٹ فائنڈنگ اعظم خاں کے سیتاپور جیل سے آجانے کے بعد ہوگی۔
اسماعیل باٹلیوالا نے کہا کہ ہم اپنی جدوجہد سے جوہر یونیورسٹی کے حق میں کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے یا نہیں یہ تو آنے والے وقت میں دیکھا جائے گا، لیکن ای ٹی وی بھارت کے ذریعہ ہم اپنا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہماری ٹیم ملک و بیرون ملک میں جوہر یونیورسٹی کی حمایت میں کھڑی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اب تک کی آپ کی فیکٹ فائنڈنگ کس نتیجہ پر پہنچی ہے تو باٹلیوالا نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ اس متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ابھی وہ صرف دستاویزات جمع کر رہے ہیں۔ جب تک تینوں مرحلوں کی فیکٹ فائنڈنگ مکمل نہیں ہو جاتی تک وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ ہم یونیورسٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس موقع پر ممبر اسمبلی ڈاکٹر تزئین فاطمہ نے کہا کہ میں اسماعیل باٹلیوالا اور ان کی ٹیم کی بے حد شکرگزار ہوں کہ وہ اتنی دور سے یہاں آئے اور انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ وہ جوہر یونیورسٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مزید پڑھیں:
واضح رہے کہ رامپور کی ایس ڈیم ایم کورٹ نے محمد علی جوہر یونیورسٹی کی 70 ہیکٹیئر اراضی کو حکومت کے نام سپرد کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے متعلقہ محکمہ نے فوری وہ اراضی حکومت کے نام کر دی ہے۔ جس سے یونیورسٹی کے پاس بہت کم ہی اراضی باقی بچی ہے۔