لکھنؤ:کہا جارہا ہے کہ 2023 میں آبادی کے تناسب میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ بھارت میں بڑھتی آبادی کا کون ذمہ دار ہے؟ اس حوالے سے سیاسی رہنماؤں کا متعدد رد عمل سامنے آتا ہے اور وہ مسلمانوں کو اس ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، تاہم مذہبی رہنما مانتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے لیکن وہ کسی بھی ذات یا مذہب کے ماننے والوں کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے بلکہ وہ اس کو ملک کے معاشی اور تعلیمی پسماندگی کے پس منظر دیکھتے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت نے متعدد مذہبی رہنماؤں سے بڑھتی ہوئی آبادی پر بات چیت کی۔ India Population 2022
آل انڈیا محمدی مشن کے صدر مولانا ایوب اشرف کچھوچھوی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کا ذمہ دار مسلمان قطعاً نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی آبادی گزشتہ 20 برس میں کم ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی اور تعلیمی پسماندگی اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ذمہ دار ہے۔ جب ملک کے باشندے تعلیم یافتہ ہوں گے اور معاشی حالت مستحکم ہوگی تو یہ آبادی خود بخود کم ہو جائے گی۔
ایوب اشرف کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق اگر بات کی جائے تو تعلیم یافتہ افراد میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے وہیں متوسط طبقہ اور غریب طبقہ میں بے تحاشہ آبادی کا اضافہ ہوا ہے ایسے میں آبادی کو کسی خاص مذہب کے ماننے والوں سے جوڑ کے دیکھنا غلط ہوگا۔انہوں نے کہا کہ آبادی کے حوالے سے جہاں تک مذہب کا سوال ہے تو ہندوتوا کا نظریہ ہے کہ انسان دنیا میں انسانوں کو پیدا کرنے کے لیے ہی بھیجا گیا ہے اگر وہ پہلے جنم میں انسانی نسل کی افزائش نہیں کر سکتا ہے تو اس کو دوسرے جنم میں بھیجا جائے گا۔ جبکہ اسلام مذہب میں اس طرح کا کوئی نظریہ ہے ہی نہیں۔