کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک بھر میں مدارس اور اسکول طویل عرصہ سے بند ہیں جس میں دارالعلوم بھی شامل ہے۔ ایسے میں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ کس طرح سے شروع کیا جائے، مجلس شوریٰ کے سامنے یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہوگا۔
واضح ہو کہ گذشتہ دنوں مدارس سے تعلق رکھنے والے علماء کا ایک طبقہ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی کی قیادت میں ڈی ایم سہارنپور سے بھی ملاقات کر چکا ہے، لیکن ابھی تک مدارس کھلنے کے حوالے سے تصویر صاف نہیں ہوئی ہے۔
اس سلسلہ میں مجلس شوریٰ کیا فیصلہ لیتی ہے اور اس کی روشنی میں دیگر چھوٹے بڑے مدارس جو اس وقت سخت مالی تنگی میں مبتلہ ہیں وہ شوریٰ کے اہم اجلاس کی جانب نظریں لگائے ہوئے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں مجلس شوریٰ کا اجلاس شروع اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ختم ہوئے تعلیمی برس میں شوریٰ کیا فیصلہ لیتی ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی اہم اور قابل توجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو دور دراز سے حصول علم کے لیے روانہ بھی کریں گے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:بنارس: گھروں میں نالے کا پانی داخل، معمولات زندگی مفلوج
اسی کے ساتھ ہی مجلس شوریٰ کو اس بار شیخ الحدیث کے اہم عہدہ کے لیے بھی فیصلہ لینا ہے۔ اس صف میں علامہ قمر الدین، مفتی حبیب الرحمان اور مولانا نعمت اللہ اعظمی کے نام میں سے کسی ایک پر فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ کیا ان کے علاوہ بھی کوئی چوتھا نام منظر عام پر آسکتا ہے۔
اس کے علاوہ کورونا جیسی مہلک وبا کے ابھی ختم نہ ہونے کی وجہ سے طلبا کی رہائش اور تعلیمی نظام میں تبدیلی بھی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں جمعیت علماء ہند کے قومی صدر کی جانب سے خالی کیے جانے والے دونوں نئے اور پرانے مکانات سے متعلق فیصلہ بھی اِسی مجلس کے دوران کیا جانا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مالی برس سنہ 2020-21 کے بجٹ کو عملی طور سے پاس کرائے جانے کے لیے بلایا گیا ہے۔ ویسے تو مجلس شوریٰ کا اجلاس ہمیشہ ہی خاموشی کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے جس میں اراکین شوریٰ ادارہ کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے علاوہ دارالعلوم کی ہمہ جہت ترقی اور طلبہ کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرانے جیسے اہم امور پر غور وخوض کرتے ہیں اور اتفاق رائے سے اہم تجاویز منظور کرتے ہیں مگر پھر بھی ہر بار محبان دارالعلوم کا ایک بڑا طبقہ شوریٰ کے ممبران اور اجلاس پر نظریں لگائے رہتا ہے۔
شہر کے ایک بڑے طبقہ کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ شوریٰ کے ممبران طلباء اور دیگر افراد سے فاصلہ بنائے رکھتے ہیں اور دارالعلوم کی زمینی ضروریات پر توجہ نہیں کرتے۔ ان کے مطابق شوریٰ نے گذشتہ برسوں میں طبی صحولیات کے تحت ایک بڑے اسپتال کے قیام کا فیصلہ لیا تھا جس سے طلبہ مستفید ہو سکیں مگر پانچ برس گزرنے کے باوجود اس پر عملی کارروائی ابھی تک شروع نہیں ہو سکی ہے۔
واضح ہو کہ اس وقت ادارہ کی جانب سے عظمت ہسپتال کے نام سے طبی صہولیات فراہم کی جا رہی ہیں مگر آج بھی اس میں قابل ڈاکٹروں کا فقدان ہے جس کی کمی ایک طویل مدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اتنے بڑے ادارہ کی سرپرستی میں چلنے والے ہسپتال میں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر، سرجن یا مخصوص امراض کے لیے ڈاکٹر موجود نہیں ہے جو بہت فکر کی بات ہے۔ امید ہے کورونا مدت کے وقت اس ہسپتال کی اہمیت کے پیش نظر یہ معاملہ بھی رکن شوریٰ اٹھا سکتے ہیں۔
واضح ہو کہ ایک طوہل مدت سے دارالعلوم دیوبند کے مکمل نظام کو مجلس شوری دیکھ رہی ہے، جس میں ملک کے مختلف حصوں کے علماء اور باوقار شخصیات کو شامل کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا مقصد ملک کے مختلف حصوں سے مسلمانوں کی نمائندگی، ادارہ کا نظم بنانا اور ادارے کی امداد کے لیے ملک اور بیرون ملک میں سہولت سے رسائی کرنا بھی ہے۔