لکھنؤ:فیض حسنین عابدی نے ای ٹی بی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ مہم برسوں سے جاری رکھا ہے۔ اب تک کہ 25 ہزار درخت لگا چکے ہیں۔ نہ صرف لکھنؤ بلکہ اطراف کے علاقوں میں ہماری پوری ٹیم نے پوری محنت و مشقت کے ذریعے 25 ہزار درخت لگا چکی ہے۔ یہ پودے ہم مونسپل کارپوریشن اور محکمہ جنگلات سے منت و سماجت کر کے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پودے سے بھی دوسرا پودا تیار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ میں صرف درخت لگاتے ہیں بلکہ اس کے فوائد کے بارے میں بھی عوام کو بتاتے ہیں تاکہ وہ اپنے گھر اور گرد و نواح کے علاقے میں شجر کاری کریں۔ ہم لوگوں کا ہدف ہے کہ لکھنؤ میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ فضائی آلودگی سے عوام کو نجات مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ درخت لگانے سے نہ صرف ہمارے روزمرہ زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ کھلی فضا میں سانس لینے میں بھی آسانی ہوگی اور نئی نسلوں کو درخت کے فوائد کے بارے میں بتایا جاتا ہے تاکہ وہ اس بارے میں بیدار ہوں۔ حکومت تو کروڑوں درخت لگانے کا ہدف طے کرتی ہے اور عالمی ریکارڈ بھی بناتی ہے لیکن زمین پر وہ درخت رہتے ہیں کہ نہیں رہتے ہیں، اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ حکومت نے کروڑوں درخت لگوا دیے لیکن زمین پر وہ دکھائی نہیں دیتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شجرکاری کے بعد اس کی دیکھ ریکھ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی جانب کوئی توجہ ہوتی ہے لیکن ہم لوگ جو بھی درخت لگاتے ہیں سال میں ایک بار ضرور اس کی خبر لیتے ہیں تاکہ اگر وہ درخت خراب ہو چکا ہے تو اس کی جگہ دوسرا پودا لگایا جا سکے۔