ریاست اتر پردیش کے ضلع میرٹھ میں بھی لاک ڈاون سے پیدا ہوئے حالات کے پیش نظر مساجد کے ائمہ اور مدرسہ کے اساتذہ کو تنخواہیں نہیں ملنے سے ان کو گھر کے اخراجات کو پورا کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے ۔ ایسے ماحول میں کچھ ائمہ نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ دوسرے کاموں کے ذریعے گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وہیں دوسری جانب مدارس کے بند ہونے سے بیروزگاری میں زندگی گزارنے کو مجبور مدرس حکومت اور سماجی تنظیموں سے مدد کی گوہار لگا رہے ہیں۔
میرٹھ : لاک ڈاؤن کے بعد سے ائمہ و موذنین معاشی تنگی کے شکار میرٹھ : لاک ڈاؤن کے بعد سے ائمہ و موذنین معاشی تنگی کے شکار امام مولانا نور محمد نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے حالات بہت خراب ہوگئے تھے، کیونکہ لاک ڈاؤن میں گھر میں رہنے کی وجہ سے آمدنی کا ذریعہ ختم ہوگیا تھا۔لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد میں نے مسجد میں اپنے خدمات شروع کردئیے لیکن معاشی زندگی میں کوئی بہتری نہیں ہوئی اور میں نے سیلائی سیکھ کر اب پردوں کی سیلائی کر گھر کے اخراجات پورا کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
میرٹھ : لاک ڈاؤن کے بعد سے ائمہ و موذنین معاشی تنگی کے شکار میرٹھ : لاک ڈاؤن کے بعد سے ائمہ و موذنین معاشی تنگی کے شکار انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مسجد کے ائمہ،مدرسین اور غریب طبقے کی جانب توجہ مبذول کریں اور ان کی پریشانیوں کو دور کیا جائے۔
وہیں میاں جی جو بطور موذن اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس لاک ڈاؤن کے وقفہ ہمارے لیے بہت امتحان کی گھڑی ثابت ہوا ہے۔ہم نے ایسا وقت کبھی نہیں دیکھا، اس لیے حکومت سے مطالبہ ہے کہ تمام ضرورتمندوں کی جانب توجہ دی جانی چاہیے۔
مدرسہ کے اساتذہ عبدالماجد کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں مدارس بند ہونے کی وجہ سے مدرسہ کے ذمہ داران نے ہاتھ کھڑے کردئیے اور ان اساتذہ کو مدرسہ سے الگ بھی کردیا گیا۔ان مشکل حالات میں ان اساتذہ کے پاس نہ تو کوئی دوسرا ذریعہ معاش تھا اور پنجی نہیں ہونے کی وجہ سے وہ کاروبار بھی نہیں کرپائے۔مدرس کے پاس دوسرا کوئی ہنر بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشی زندگی کو بہتر کرپائیں اور غیرت کی وجہ سے یہ اساتذہ مزدوری جیسے کام بھی نہیں کرپائے ایسے میں یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قوم کے ذمہ داران لوگوں نے غرباء و محتاجوں کی مالی مدد تو کی لیکن انہوں نے اس جانب بالکل توجہ نہیں دی، جسکی وجہ سے یہ معاشی تنگی کے دلدل میں مزید پھنستے چلے۔ جا رہے ہیں۔وہ علمائے کرام جو مدرسہ سے الگ ہوگئے ہیں، وہ سب سے زیادہ اس سے متاثر ہوئے ہیں اور قوم نے انہیں اور ان کی معاشی بدحالی کو سرے سے نظر انداز کردیا ہے۔اس لیے اب وقت آگیاہے کہ کوئی بڑی تنظیم یا معاشی لحاظ سے مضبوط لوگ ایک تحریک کی شروعات کریں تاکہ ان مدریسین وسط درجے کی زندگی بآسانی سے گزار سکیں۔وہیں عام لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی ان لوگوں کے بارے میں سوچیں۔
ملک میں انلاک کی شروعات کے بعد سے ایک طرف جہاں زندگی کا معمول پٹری پر لوٹتا نظر آرہا ہے ایسے میں ضرورت ہے کہ مساجد کے ائمہ اور مدرس کی سماجی تنظیموں کی پہل سے ان کی مدد کی جائے، تاکہ دنیا کے ساتھ دینی سرمایہ کو بھی بچایا جا سکے ۔