آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے گذشتہ روز اسد الدین اویسی کے نام ایک کھلا خط Maulana Sajjad Nomani Letter to Owaisi لکھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’11 جنوری کو لکھنؤ میں جو کچھ ہوا، اطلاعات کے مطابق یہ صرف آغاز ہے، آگے اور بہت کچھ ہونے والا ہے‘ اس کے پیش نظر اور زیادہ ضروری ہوگیا کہ فسطائی طاقتوں کے خلاف ووٹوں کی تقسیم کو کم کیا جائے۔ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ جن نشستوں پر امید قوی ہے کہ مجلس کے امیدوار کو کامیابی ملے گی ان نشستوں پرزور طریقے سے انتخابی میدان میں حصہ لیں۔ لیکن جس نشستوں پر امید نہیں ہے وہاں خود گٹھ بندھن کی اپیل کردیں۔
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے خط پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سلمان ندوی حسینی نے کہا کہ ’خط سے نااتفاقی کا اظہار ہوگا ہے‘۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شور اور واویلا کہ مجلس اتحاد المسلمین کے انتخابی میدان میں آنے سے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے یہ بالکل درست نہیں ہے موجودہ وقت میں اتر پردیش میں مسلمانوں کی قیادت اگر سیاسی سطح پر کوئی کر رہا ہے تو وہ اسدالدین اویسی کی پارٹی ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا سجاد نعمانی مجلس کے خیر خواہ ہیں۔
مولانا سلمان ندوی حسینی نے مزید کہا کہ اسد الدین اویسی کو خط لکھا لیکن ہم ان کے نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصد ہے- اس کے باوجود سیاست میں حصہ داری نہ کے برابر ہے۔ اسد الدین اویسی مسلمان،مظلوم طبقات، غریب طبقہ کی آواز بلند کرتے ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اویسی کو حمایت کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی ترجیح ہرگز یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی پارٹی کو شکست دینے کے لیے ووٹ کریں بلکہ جیتانے کے لیے وہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ جا سکتے ہیں۔