علیگڑھ:عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے تقریبا سبھی پروگرام کے آخر میں اے ایم یو ترانہ بڑے ہی شان و شوکت سے پڑھا جاتا ہے۔ اے ایم یو میں ایک ترانہ ٹیم بھی ہے جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی شامل ہیں۔ مجاز کی 68 وی برسی پر ڈاکٹر راحت ابرار نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا مجاز کے والدین نے مجاز کا داخلہ اے ایم یو میں کروایا تھا انہوں نے یہاں سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی اور ان کو یہاں کی فضا کافی راس آئی تھی ایک ترقی پسندوں کا گروپ بن گیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا مجاز بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، ہندوستان کے دورے پر ترقی کی خالدہ ادیب خانم آئی تھی تو اے ایم یو طلباء یونین ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ان کو لائف ٹائم ممبرشپ بھی دی گئی تھی اس وقت مجاز نے ایک نظم نذر خالدہ پیش کی تھی اس کے بعد مجاز نے دوسری نظم نذر علیگڑھ لکھی جو انقلابی تھی۔ مجاز کی انقلابی نظم نذر علیگڑھ کو جب اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا اس پوری نظم سے انقلابی لائن کو ہٹا دیا جائے جس کے بعد مجاز کی نظم نذر علیگڑھ کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ بنادیا گیا جس کو پہلی مرتبہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی موجودگی میں ہی پیش کیا گیا۔