لکھنؤ:اتر پردیش کے مراد آباد میں ایک نجی گھر میں نماز تراویح ادا کرنے پر سخت گیر ہندو تنظیموں کے ہنگامے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے تراویح نماز بند کرا دی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے یوٹرن لیا اور کہا کہ کسی بھی نجی گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ اس کے بعد لکھنؤ کی رہنے والی سماجی کارکن سید عظمی پروین نے ودھان بھون کے باہر نماز ادا کی جس کے بعد ان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ اس کے بعد عظمیٰ کے خلاف لکھنؤ انتظامیہ کی جانب سے کاروائی ہونے کی بات سامنے آئی تھی لیکن اب معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے عظمی پروین نے کہا کہ آئین ہند نے جو حقوق ہمیں دیے ہیں، اسی کے دائرے میں رہ کر کے ہم تمام کام کرتے ہیں اور اسی کے تحت ہم نے نماز بھی ادا کی۔ عصر نماز کا وقت ہورہا تھا، اسی دوران ودھان بھون کے پاس پہنچی اور وہیں پر ہم نے مصلیٰ بچھا کر نماز ادا کرلی۔ اس تصویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا اور اس کے بعد یہ وائرل ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ نماز پڑھنے کے لئے آئین نے ہمیں آزادی دی ہے۔ اسی کے تحت ہم اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں۔ مراد آباد میں نماز ادا کرنے سے روکنے کے معاملے پر بھی انہوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کی اس معاملے کو بھی میں باریکی سے دیکھ رہی تھی اور اس پر ہم نے بیانات بھی دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے جو جوابی کارروائی کی تھی وہ سراسر غلط تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نماز ہم نے اس لیے بھی ادا کی تھی تاکہ ایک پیغام سماج میں دیا جاسکے کہ لوگوں کو نماز ادا کرنے کی آزادی حاصل ہے، وہ آئین کے دائرے میں رہ کر کہیں بھی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کے حوالے سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے کارکنان ہنگامہ آرائی کرنے لگتے ہیں۔ ان کو میں کہنا چاہتی ہوں کی اتر پردیش کے وزیر اعلی صرف ہندوؤں کے وزیراعلی نہیں ہیں بلکہ کی ریاست کے سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام کے وزیراعلی ہیں اور ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ اسی کے تحت ہم لوگ نماز ادا کرتے ہیں لہذا کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ ہماری عبادت میں دخل اندازی کرے۔
انہوں نے وزیر اعلی سے یہ امید بھی ظاہر کی کہ جس طریقے سے کانوڑ یاتریوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برسائے گئے تھے، اسی طریقے سے عید کے موقعے پر نمازیوں پر بھی ہیلی کاپٹر سے پھول برسائے جائیں۔ بی جے پی اگر اس طریقے کا کام کرتی ہے تو نہ صرف مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہوگا بلکہ کہ ان کا ووٹ بھی اسے بڑی مقدار میں حاصل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سخت گیر ہندو تنظیموں کے کارکنان کو بتانا چاہتی ہوں کہ اگر ملک کے لیے سرحد پر جنگ کے لیے بھی جاتی تو وہاں بھی نماز کے وقت نماز ادا کرتی، یہی نہیں بلکہ اگر وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کی رہائش گاہ پر بھی ہوتی تو نماز کا وقت ہوتا تو بھی نماز ادا کرتی۔