لکھنؤ: آم کا موسم اختتام پذیر ہونے کو ہے اور دنیا بھر کے لوگ آم کے ذائقے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک ہی درخت میں 300 سے زائد اقسام کے آم کیسے پیدا ہوتے ہیں اور مینگو مین حاجی کلیم اللہ نے کیسے یہ سب کیسے ممکن کر دکھایا۔ ساتویں جماعت تک تعلیم یافتہ حاجی کلام کلیم اللہ کو بھارت کے معزز ایوارڈ پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ حاجی کلیم اللہ لکھنو کے سے 30 کلومیٹر دور ملیح آباد میں رہتے ہیں جن کا ایک طویل و عریض آم کا باغ ہے۔ ملیح آباد پورے ملک میں آم کی بہترین فصل کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور یہاں کے آم نہ صرف لذیذ و ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ یہاں مختلف اقسام کے آم پیدا کیے جاتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے مینگو مین حاجی کلیم اللہ سے بات چیت کی ہے جنہوں نے آم کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔ حاجی کلیم اللہ بتاتے ہیں کہ ساتویں جماعت کے بعد میں جھانسی چلا گیا اس کے بعد جب آیا تو آم کے درخت لگائے اس کے بعد 1970 میں میری شادی ہوگئی، ایک درخت تھا جس پر 33 قسم کا عام لگتے تھے لیکن جب اس کے ارد گرد پانی بھر گیا اور میں نے خشک کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام کوشش رہی اور میں نا امید ہو گیا۔ 1991 میں اس درخت پر 33 سے زائد اقسام کے آم آئے اس وقت خوشی کے انتہا نہیں رہی اور اسی زمانے سے آموں کے اقسام پر کام کرنا شروع کیا۔
حاجی کلیم اللہ بتاتے ہیں کہ جب آم کا پھول 60 فیصد کھل جائے تو ایک پھول کو دوسرے پھول میں ملانے سے آم کی ایک نئی قسم بنتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہواؤں کی وجہ سے یہ پھول ایک دوسرے سے ملتے ہیں جس کے بعد یہ نئے قسم کا آم پیدا ہوتا ہے۔ حاجی کلیم اللہ نے رواں برس نئے دسہری آم کی پیداوار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری بڑی خواہش تھی کہ دسہری کی کوئی ایسی قسم پیدا ہو جس کی ایک جانب سرخ اور دوسرے جانب سبز ہو۔ انہوں نے کہا کہ سرخی سے اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا اور اس کے ذائقے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے وہ ہمارے ہی باغ میں پیدا ہوا اور اس کا نام نیا دسہری رکھا ہے۔