وزیراعظم نریندر مودی نے مارچ میں کورونا وائرس کے پیش نظر 21 دنوں کے لیے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔
وزیراعظم کے اعلان کے بعد عوام میں افراتفری کا ماحول ہوگیا، لوگ کھانے پینے کا سامان ضرورت سے زیادہ خریدنے کی غرض سے بازاروں کی جانب دوڑ پڑے۔ اتنا ہی نہیں جن لوگوں کا تعلق گاؤں دیہات سے ہے، وہ بھی شہروں سے اپنے گھروں کی طرف پیدل اور بھوکے پیاسے ہی روانہ ہو گئے۔
لاک ڈاؤن: مہاجر مزدوروں کا اپنے آبائی شہر پہنچنے کی جدوجہد اترپردیش کے دارلحکومت لکھنو کے چار باغ بس اسٹیشن اور ریلوے اسٹیشن پر ایسے لوگ پہنچے جو گورکھپور، بستی، رامپور اور دیگر شہروں سے پیدل یا دوسری سواریوں سے یہاں آئے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران گورکھپور سے آئے ہوئے محمد وسیم نے بتایا کہ وہ بس کے ذریعے لکھنؤ پہنچے ہیں، اس کے لئے انہوں نے 368 روپے بطور کرایہ ادا کیا۔
قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت نے سبھی اضلاع کے افسران کو واضح طور پر ہدایت دی ہے کہ جو لوگ پھنسے ہوئے ہیں، انہیں مفت میں ان کے آبائی وطن بسوں سے بھیجا جائے۔
ایک عمر دراز خاتون نے بات چیت کے دوران بتایا کہ وہ بستی ضلع سے بس کے ذریعے لکھنؤ پہنچی ہیں، اب وہ جھانسی جانا چاہتی ہیں لیکن یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ لکھنؤ سے انہیں نہ تو ٹرین مل سکتی ہے اور نہ ہی بس سے وہ اپنے گاؤں جا سکتی ہیں۔
ایسے میں ان کے سامنے بڑی پریشانی ہے کہ آخر وہ جھانسی کیسے پہنچ پائیں گی؟
حکومت بھلے ہی عوام کی بہتری کے لیے بڑے بڑے اعلانات کریں لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری افسران کی ہوتی ہے۔
کورونا وائرس کے سبب عوام مفلسی میں جی رہے ہیں، وہیں ان سے کرایہ وصول کر کے ان کی کمر توڑنے کا کام کیا جا رہا ہے۔