رمضان المبارک میں گزشتہ برسوں کی طرح اس بار رمضان میں وہ سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں مل رہی ہیں۔ بازار سے رونقیں غائب ہیں وہیں مساجد میں چند افراد ہی عبادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے چلتے اس بار کا رمضان بالکل مختلف ہے۔ نوابی شہر لکھنؤ کی بات کی جائے تو، یہاں پر ماہ رمضان میں نوابی دور سے روزہ داروں اور غریبوں کے لئے سحری اور افطار گھروں میں بھجوانے کی روایات رہی ہے، جو آج بھی بدستور جاری ہے لیکن لاک ڈاؤن کے سبب اس بار یہ قدیم روایت ٹوٹ گئی۔
حسین آباد ٹرسٹ کی جانب سے پورے ماہ رمضان کی سحری و افطاری کا اہتمام کیا جاتا تھا، جو اودھ کے نواب آصف الدولہ کے دور اقتدار سے شروع ہوا تھا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران امام باڑہ کے ملازم نواب نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے وجہ سے اس بار ٹرسٹ رمضان المبارک میں روزہ داروں کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم ملازم ہیں ہمیں جو اعلی افسران کی طرف سے ہدایات ملتی ہے، اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنی جانب سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
آصف حیدر جو ملازمین انچارج ہیں، انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سبھی لوگ پریشان حال ہیں۔ حسین آباد ٹرسٹ کی جانب سے غریب لوگوں کی امداد ہمیشہ سے ہوتی آرہی ہے لیکن اس بار کوئی مدد نہیں ہوئی۔
اس بار رمضان کی رونقیں غائب انہوں نے بتایا کہ ہم ملازمین کو 4500 روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ اتنے میں مشکل سے گزارا ہو پاتا ہے۔ ٹرسٹ کے اعلی افسران کو چاہیے تھا کہ مصیبت کی گھڑی میں وہ سحری اور افطار کی جگہ پر راشن ہی تقسیم کروا دیتے تاکہ غریبوں کی مدد ہو جاتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
حسین آباد ٹرسٹ کے زیر نگرانی لکھنؤ میں 15 مساجد ہیں، جن میں پورے ماہ چھوٹے امام باڑے کے شاہی باورچی خانے میں جو افطاری بنائی جاتی ہے، ٹرسٹ کے کارکنان سبھی مساجد میں اسے عصر کے سے پہلے ہی تقسیم کرنا شروع کر دیتے تھے۔ یہ صدیوں سے روایات قائم ہے، جو آج بھی بدستور جاری ہے۔
نوابی دور کی روایات پر لاک ڈاؤن گذشتہ سال تک حسین آباد ٹرسٹ کی جانب سے روزہ داروں کے لئے افطار کا اہتمام ہوتا تھا، وہیں غریب طبقے کے لوگوں کے لئے چھوٹا امام باڑہ کے باورچی خانہ میں بنا ہوا کھانا تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس میں غریبوں کو رمضان ماہ سے قبل ہی ایک پرچی تقسیم کردی جاتی ہے، جس میں 30 دن کے لئے اس شخص کا نام ہوتا ہے۔ اس پرچی کو دکھا کر روٹی اور سالن پورے ماہ دیا جاتا ہے۔لیکن لاک ڈاؤن کیا یوا، قدیم روایات کو ہی بند کر دیا گیا، جس وجہ سے وہاں کے ملازمین میں ناراضگی ہے۔