شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنئو میں ہوئے احتجاج کے بعد کئی سماجی کارکنان کو نظر بند کر دیا گیا تھا، پولیس نے ان کی گرفتاری کی وجہ احتجاج میں شامل ہونا بتائی، انہی میں سابق آئی پی ایس افسر 'ایس آر دارا پوری' بھی شامل تھے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن و سابق آئی پی ایس، ایس آر دارا پوری نے بتایا کہ '19 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کے لیے 'پریورتن چوک' کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن 19 تاریخ سے قبل ہی ضلع انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کردیا باوجود اس کے کسی کو بتایا نہیں گیا جو کہ بالکل غلط تھا۔
دارا پوری نے بتایا کہ '19 دسمبر کی صبح ہی مجھے پولیس نے گھر میں نظر بند کر دیا لیکن بعد میں پولیس گرفتار کرکے لے گئی اور احتجاج میں شامل ہونے کی بات کہی جو کہ بے بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'مجھے پولیس ریمانڈ میں لینے کے لیے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا لیکن انہوں نے پولیس ریمانڈ دینے سے صاف انکار کردیا کیوں کہ پولیس میرے خلاف ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
دارا پوری نے مزید کہا کہ 'پولیس نے زیادہ تر لوگوں کو 19 دسمبر کو گرفتار کیا لیکن ان کی گرفتاری کافی بعد میں دکھائی گئی۔ اس کے علاوہ سماجی کارکنان کو بری طرح زد و کوب کیا گیا یہاں تک کہ مذہب کے نام پر مسلم نوجوانوں کے ساتھ ظلم و ستم ڈھائے گئے۔
واضح رہے کہ کانگریس رہنما صدف ظفر، سماجی کارکن دیپک کبیر، پون امبیڈکر جیسے لوگوں کو بھی پولیس نے بری طرح مارا پیٹا تھا حالانکہ اب ان سبھی کی رہائی ہو گئی ہے۔