لکھنؤ:موسم سرما میں لکھنؤ کے متعدد شاہراؤں پر کشمیری میوہ فروش نوجوان کاروبار کرتے ہیں۔ یہ روایت گزشتہ کئی برسوں سے چلی آرہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کثیر تعداد میں کشمیری نوجوان اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کا رخ کرتے ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں کشمیری میوہ فروشوں کے ساتھ ناسازگار واقعات پیش آئے ہیں، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تازہ معاملہ لکھنؤ کے سمتہ کول چورا کا ہے اور 1090 چورا پر تقریباً سینکڑوں کشمیری نوجوان میوہ فروشی کے کاروبار سے وابستہ ہیں، لیکن لکھنؤ میونسپل کارپوریشن نے میوہ فروش نوجوانوں کو نہ صرف حراست میں لیا بلکہ ان کے ساز و سامان اور میوہ کو بھی ضبط کر لیا ہے۔
اس واقعے سے سینکڑوں کی تعداد میں آئے کشمیری نوجوانوں کے مابین خوف و حراس اور مایوسی دیکھی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے خورشید احمد نے کشمیری میوہ فروش نوجوانوں سے بات چیت کی ہے۔میوہ فروش جاوید احمد نے کہا کہ موسم سرما میں کشمیر میں شدید برف باری ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کشمیری نوجوان دیگر ریاست اور شہروں میں تجارت کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ کشمیر میں اگر روزگار میسر ہوں اور برفباری نہ ہو تو ہم کشمیر سے باہر جانا پسند نہیں کرتے، لیکن حالات کی مجبوری کی وجہ سے کشمیری نوجوان دیگر شہروں میں جا کر اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لکھنؤ میں تقریباً 15 برس سے کشمیری نوجوان میوہ فروشی کا کام کرتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہاں کی میونسپل کارپوریشن وقت وقت پر پریشان کرتی ہے۔ میوہ فروشوں نے کہا کہ آج ایک تازہ واقعہ پیش آیا جس میں تقریبا 20 کشمیری نوجوانوں کو میونسپل کارپوریشن کے لوگوں نے حراست میں لیا اور ان کا سامان بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔ یہ سراسر ظلم ناانصافی ہے۔